- مصنف, ریاض سہیل
- عہدہ, بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، گوادر
’بلوچ راجی مچی ہمارے حق میں تھی۔ ایک عورت سے مقابلے کے لیے 10، 15 ہزار (سکیورٹی) اہلکار منگوائے گئے۔ یہ سرکار ہے؟ کیا سرکار ایسی ہوتی ہے؟‘
گوادر میرین ڈرائیو پر واقع پدری زر جیٹی پر اپنے کام میں مصروف 65 سالہ ماہی گیر محمد صالح نے ہم سے یہ سوالات اُس وقت کیے جب ہم نے اُن سے دریافت کیا کہ گذشتہ ماہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے کے دوران مظاہرین کی جانب سے سامنے آنے والے مطالبات کیا گوادر میں بسنے والے شہریوں کے مسائل سے مطابقت رکھتے تھے؟
پدری زر جیٹی سے چند قدم کے فاصلے پر واقع شاہراہ پر 28 جولائی کو بلوچ یکہجتی کمیٹی نے ’بلوچ راجی مچی‘ کے بینر تلے ایک اجتماع منعقد کیا تھا۔
جب بی بی سی کی ٹیم نے گذشتہ دنوں اِس جگہ کا دورہ کیا تو اُس وقت بھی سڑک پر شرکا اور فورسز میں ہونے والے تصادم کے اثرات پتھروں اور مظاہرین کی جانب سے نذرِ آتش کیے گئے بجلی کے کھمبوں کی صورت میں موجود تھے۔
یاد رہے کہ بی بی سی نے گوادر کا یہ دورہ بلوچستان بھر میں ہونے والے عسکریت پسندوں کے حملوں سے چند روز قبل کیا تھا۔
سنہ 2006 میں جب گودار کے گہرے سمندر میں بندرگاہ کی تعمیر ہوئی تھی تو یہاں کے شہریوں کے ساتھ یہ وعدے بھی کیے گئے تھے کہ اُن کے بنیادی مسائل حل کیے جائیں گے جس سے اُن کے حالات بدل جائیں گے اور یہ خطہ ترقی کی نئی منازل طے کرے گا۔
اس شہر میں جب چین پاکستان اقتصادی راہدری کے منصوبے کا آغاز ہوا تو سامنے آنے والے پروگرام میں بجلی اور پینے کے پانی جیسی بنیادی سہولیات کے ساتھ ساتھ صنعتوں کے قیام کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا گیا تاہم ان اعلانات کے باوجود ایک نئی کشیدہ صورتحال نے جنم لیا جس کے نتیجے میں اس خطے میں سیاسی سماجی تحریکوں کے ساتھ عسکریت پسندی نے بھی فروغ پایا۔
لگ بھگ ایک ماہ قبل اسی شہر میں بلوچ یکہجتی کمیٹی نے مسخ شدہ لاشوں، جبری گمشدگیوں، سرحدی تجارت کی بندش کے خلاف کے ساتھ ساتھ گوادر کے ساحل اور وسائل پر مقامی لوگوں کے حق ملکیت تسلیم کرنے کے مطالبات کے ساتھ دھرنا دیا تھا۔ اس احتجاج کی قیادت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین محمد کر رہی تھیں۔
یاد رہے کہ حالیہ دھرنے سے قبل بلوچ یکجہتی کمیٹی کا بیانیہ زیادہ تر لاپتہ افراد کی بازیابی کے گرد ہی گھومتا تھا۔
بی بی سی اُردو نے اس حالیہ تحریک کے سیاسی اثرات معلوم کرنے کے لیے گوادر شہر کا رُخ کیا اور عام لوگوں، تاجروں، وکلا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔
بیشتر افراد کا دعویٰ تھا کہ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے سے قبل ہی گوادر میں بندرگاہ اور اس کے آس پاس کے ترقیاتی منصوبوں کے باعث مقامی ماہی گیروں کے سمندر میں جانے میں درپیش رکاوٹیں بشمول ناکہ بندی، گہرے پانیوں میں ٹرالنگ، گذشتہ بارشوں اور طوفان میں ماہی گیروں کی کشتیاں ٹوٹنے اور شہر میں مکانات گرنے کے بعد سرکار کی جانب سے امداد نہ ملنے اور ایرانی سرحد سے آنے والے تیل اور اشیائے خوردونوش کی روک تھام وہ مسائل تھے جو اس شہر میں پہلے سے موجود تھے اور ان ہی کی وجہ سے مقامی رہائشیوں میں ناراضی اور غصے کا احساس بھی موجود تھا۔
گوادر کے شہری ناراض کیوں ہیں؟
ماہی گیر محمد صالح کا دعویٰ ہے کہ ’سرکار گوادر والوں کے لیے نہیں سوچتی۔ ٹرالنگ اُسی طرح سے آج بھی جاری ہے جیسے پہلے ہو رہی تھی اور اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمیں اب دو وقت کی روٹی بھی نہیں مل پاتی۔‘
میرین ڈرائیور جیٹی پر اکثر لوگ بات کرنے سے کترا رہے تھے اور ایک مقامی ماہی گیر کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ماضی میں میڈیا سے بات کرنے والے چند ماہی گیروں سے حکام کی جانب سے پوچھ گچھ کی گئی تھی۔
نوجوان ماہی گیر ساجد بلوچ نے گوادر کے مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں گھر میں سوئے نوجوانوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ کیا اِدھر پولیس نہیں، قانون نہیں، عدالت نہیں۔۔ ایک عورت (ماہ رنگ) کی کال پر عوام نکلی کیونکہ لوگ پہلے سے مجبور ہیں۔‘
ساجد نے ساحل پر موجود کام کرنے والے بچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ دیکھیں، اِن بچوں کی عمر سکول جانے کی ہے۔ یہ کیا ساری زندگی مچھلیاں ہی پکڑیں گے۔۔۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمیں کوہ باتل (گوادر کا پہاڑ) دے دو، پورا سمندر دے دو۔۔۔ ہمیں یہ سب نہیں چاہیے ہمیں فقط ایک اچھا ہسپتال چاہیے، اس ہسپتال میں اچھا ڈاکٹر چاہیے اور سکول میں ایک اچھا استاد۔۔۔‘
مقامی ماہی گیروں کے رہنما یونس انور کہتے ہیں کہ ’اب سمندر آزاد نہیں رہا، سمندر میں مختلف جہگوں کو ریڈ زون قرار دیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہاں جانا اور مچھلیوں کا شکار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اب ہماری شکارگاہیں محدود ہوتی جا رہی ہیں، دوسرا بڑا مسئلہ ٹرالنگ کا ہے جس کے باعث مچھلی کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ وہ بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ ’گوادر کو پانی ملے گا، بجلی ملے گی، مگر اب میری عمر بھی پچاس سال ہو چکی ہے اور آج بھی ہمارا مطالبہ وہی کہ پانی دو، بجلی دو۔‘
گودار کی مقامی معشیت کا بڑا انحصار ایران سے آنے والی منصوعات پر بھی ہے۔ چاہے وہ کھانے پینے کی اشیا ہوں یا پیٹرول، ڈیزل، سیمنٹ، سریا یا ٹائلز وغیرہ۔ یہاں بیشتر اشیا ایران سے ہی آتی ہے، کچھ سرحد پر موجود راہداری کے ذریعے تو کچھ سمندر اور پہاڑی راستوں سے ہونے والی سمگلنگ کے نتیجے میں۔
یاد رہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے شہر میں دیے گئے دھرنے کے باعث ناصرف ماہی گیر سمندر میں مچھلی کے شکار کے لیے نہیں جا پا رہے تھے بلکہ ایرانی سرحد سے تجارت معطل تھی جبکہ باقی ملک کا گوادر اور اس کے قرب و جوار میں واقع چھوٹی آبادیوں سے زمینی رابطہ بھی منقطع تھا جس کے باعث یہاں اشیائے ضروریہ کی قلت پیدا ہو گئی تھی۔
’گوادر والوں کو جہاں امید کی کِرن نظر آتی ہے وہ اس جانب چل پڑتے ہیں‘
انجمن تاجران گوادر کے صدر حاجی غلام حسین دشتی کہتے ہیں کہ ’گوادر میں کھانے پینے کی اشیا، آٹا، گھی، فروٹ اور سبزیاں سب ایران سے آتی ہیں اور اس شہر کی ساری معیشت اسی سے وابستہ ہے کیونکہ مچھلی اور بارڈر تجارت کے علاوہ یہاں اور روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں۔ یہاں رہنے والوں کو دھرنے کے دوران کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ دھرنے کی وجہ سے سارے راستے بند تھے جبکہ مواصلاتی نظام بھی حکام کی جانب سے بلاک کر دیا گیا تھا۔ وہ چودہ سے پندرہ دن بہت اذیت کے دن تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کچھ مطالبات ایسے ہیں جو پہلے سے یہاں (گوادر) کے بنیادی مسائل ہیں اور لوگ چاہتے ہیں کہ یہ تمام بنیادی مسائل اب حل ہوں۔ یہاں نہ پانی ہے، نہ بجلی ہے، نہ سٹرک کا نظام۔۔۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’گوادر کو سی پیک پراجیکٹ کے ’ماتھے کا جھومر‘ کہتے ہیں۔ گوادر ہے تو سی پیک ہے، تو کم از کم اس شہر کو تو ترقی دیں، لوگوں کے معیار زندگی کو کچھ تو تبدیل کریں۔ اس صورتحال میں لوگوں کو جب بھی جہاں سے بھی امید کی کِرن نظر آتی ہے تو وہ اس جانب چل پڑتے ہیں یہ سوچتے ہوئے کہ شاید اب ان کے مسائل حل ہو جائیں گے۔‘
’اُن کو ووٹ نہیں اپنے لاپتہ افراد چاہییں‘
مکران ڈویژن بشمول گوادر کو ایک ایسا خطہ سمجھا جاتا ہے جہاں بلوچستان کے دیگر اضلاع کے برعکس سرداری اثر و رسوخ موجود نہیں اور یہاں نوجوانوں میں شرح تعلیم بھی صوبے کے دیگر شہروں سے زیادہ ہے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت جب 2013 میں چین نے گوادر بندرگاہ کا انتظام سنبھالا اور بلوچستان میں ’ساحل اور وسائل‘ کے نعرے نے مقبولیت حاصل کی تو نئی اُبھرنے والی سیاسی تحریکوں کے ساتھ ساتھ مکران ڈویژن کے نوجوان بھی بظاہر عسکریت پسندی کی طرف بھی مائل ہوئے۔
گذشتہ ماہ لسبیلہ میں واقع بیلہ کیمپ پر ہونے والے حملے میں ملوث قرار دیے گئے دونوں خودکش حملہ آوروں (ماہل بلوچ اور رضوان بلوچ) کا تعلق بھی گودار سے تھا جبکہ کراچی یونیورسٹی کے داخلی گیٹ پر حملہ آور ہونے والی شاری بلوچ تربت سے تعلق رکھتی تھیں اس کے علاوہ پنجگور اور نوشکی میں ہونے والے حملوں میں بھی یہاں کے ہی نوجوان ملوث قرار دیے گئے تھے۔ ان میں زیادہ تر نوجوان یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ یا زیر تعلیم تھے۔
محمد رستم گوادر کے سینیئر وکیل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آپ ہمارے وطن میں، ہماری اپنی سرزمین میں ہمیں گھومنے پھرنے نہیں دیتے اور نہ ہی جلسہ کرنے دیتے ہیں۔۔۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ وطن ہمارا ہے اس پر ہمارا حق ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ رویے ایسے ہی رہے تو اور معاملات سامنے آئیں گے۔ جو عسکریت پسند ہیں، اُن کے معاملات تو صاف اور واضح ہیں لیکن یہ لوگ (بلوچ یکہجتی کمیٹی) اپنی جمہوری آواز کے ذریعے سے اپنے ہی وطن میں جینے کا حق مانگ رہے ہیں اگر آپ انھیں یہ حق نہیں دیں گے تو پھر ظاہر ہے کہ سوالات اٹھیں گے اور نتیجتاً دوسری قوتیں بھی مضبوط ہو جائیں گی۔‘
گوادر بار کے صدر محمد صدیق بلوچ کا کہنا ہے کہ یکجہتی کمیٹی کی سیاست مختلف ہے۔ ’انھیں ووٹ نہیں چاہیے، اُن کو اپنے لاپتہ افراد چاہییں۔ لاپتہ ہونے والے بہت سے بچوں کی ان کے گھر والوں کو لاشیں ملی ہیں اور انھوں نے لاشیں اٹھائی ہیں۔ یہاں بلوچستان میں ہر دوسرا، تیسرا گھر اس صورتحال سے متاثرہ ہے۔‘
وکیل سعید فیض کی رائے ہے کہ اصل میں بلوچستان کے لوگ پارلیمانی نظام کو محفوظ سمجھتے ہیں اور اس کے لیے ہی جدوجہد کر رہے ہیں ’لیکن جیسے اگر آپ پانی کے گزرنے کا ایک راستہ بند کرتے ہیں تو وہ خود سے دوسرا راستہ بنا لیتا ہے اسی طرح بلوچستان میں اِس وقت افراتفری پھیلی ہوئی ہے اور اب ہر شخص اپنے حق کے لیے ڈٹ کر کھڑا ہوا ہے۔‘
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے حالیہ دھرنے اور بعدازاں بلوچستان بھر کے مختلف اضلاع میں ہونے والی عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کے تناظر میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی عسکریت پسندوں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے یا اپنے اقدامات اور بیانات کے ذریعے اس کے لیے راہ ہموار کر رہی ہے۔
تاہم گوادر بار کے صدر محمد صدیق بلوچ ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے اُن کے جو حقیقی مطالبات ہیں اُن کو تو حل کر دیں، حکومت لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرے، ساحل اور وسائل سے متعلق معاملات کو حل کرے، آئینی حقوق دے۔۔۔ اور یہ سب ہو جانے کے بعد بھی اگر وہ (یکجہتی کمیٹی) یہی نعرے لگاتے ہیں تو ہم بھی سمجھیں گے اور کہیں گے کہ حکومت کا بیانیہ درست ہے۔‘
یاد رہے کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ بلوچ یکہجتی کمیٹی کا احتجاج پُرامن نہیں تھا اور اس کے مقاصد سی پیک کے خلاف تھے۔
اُنھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ صوبائی حکومت کے یکجہتی کمیٹی والوں سے جو ابتدائی مذاکرات ہوئے تھے ان میں انھیں تربت میں جلسہ کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔
انھوں نے گوادر میں احتجاج کرنے کو سوچا سمجھا منصوبہ قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ اس کا مقصد فقط یہ تھا کہ اسی دورانیے میں ایک اعلیٰ سطح کا غیر ملکی وفد گوادر آ رہا تھا جس میں گوادر میں سی پیک کے دوسرے فیز کی بات ہونا تھی۔
انھوں نے یہ سوال بھی کیا تھا کہ اگر یہ پرامن لوگ ہیں تو پھر چہرے کیوں چھپاتے ہیں اور ایف سی پر فائرنگ کیسے کر لیتے ہیں؟
تاہم یکجہتی کمیٹی کے ساتھ ساتھ گوادر کی وکلا برادری بھی وزیراعلیٰ کی اس رائے سے متفق نہیں۔ گوادر بار کے صدر محمد صدیق بلوچ کہتے ہیں کہ لوگ کوئی غیر قانونی اجتماع نہیں کر رہے تھے، وہ ایک پُرامن احتجاج تھا مگر دوسری جانب حکام نے پورے شہر کو اس اجتماع کی بنیاد پر تین روز تک محاصرے میں رکھا۔ ’قانون کی خلاف ورزی تو ارباب اختیار نے کی۔‘
سینیئر وکیل رستم بلوچ کا کہنا تھا کہ یہ جلسہ بھی اسی طرح سے ایک جلسہ تھا جس طرح سے انھوں نے بلوچستان کےدیگر شہروں پر رکھا ہوا تھا۔
’یکجہتی کمیٹی نے اسلام آباد میں اعلان کیا تھا کہ وفاقی دارالحکومت میں اُن کی بات نہیں سنی گئی لہذا وہ اپنے عوام کے پاس جائیں گے، وہاں پر آواز اٹھائیں گے اور احتجاج کریں گے۔۔۔ گوادر میں جو ہوا وہ اسی کمٹمنٹ کا حصہ تھا۔‘
کیا گوادر کے لوگ پارلیمانی سیاست سے دور ہو رہے ہیں؟
بلوچستان کے سیاسی بیانیے میں اِس وقت گودار سمیت مکران ریجن مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق پارلیمانی سیاست کرنے والی ہر بلوچ قوم پرست جماعت معدنی وسائل، ساحلی وسائل، سی پیک اور مبینہ جبری گمشدگیوں کو اپنے بیانیے میں جگہ دیتی ہے مگر اس کے باوجود یہ جماعتیں عوام میں اپنی مقبولیت کھوتی جا رہی ہیں اور یہاں کے عوام کی پارلیمانی سیاست سے وابستہ امیدیں اب ختم ہوتی جا رہی ہیں۔
اس کی حالیہ مثال بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل کا قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفی ہے۔ منگل کی دوپہر اسمبلی سے مستعفی ہونے کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے اختر مینگل کا کہنا تھا کہ وہ اپنے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کر سکے کیونکہ بلوچستان کے مسائل میں کسی کی کوئی دلچسپی نہیں۔
صحافیوں کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں اختر مینگل نے کہا کہ ’حقیقی حکمران بلوچستان کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ انھوں نے بلوچستان کو کالونی سمجھا ہوا ہے۔‘
اپنے استعفے میں انھوں نے لکھا کہ ’اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ ہمارے بات کرنے اور احتجاج کرنے کی کوششوں کو دبایا جاتا ہے، یا تو لوگوں کو خاموش کروا دیا جاتا ہے، یا انھیں غدار کا لیبل لگا دیا جاتا ہے اور انتہائی صورتحال میں مار دیا جاتا ہے۔۔۔۔‘
گوادر کے سینیئر صحافی اسماعیل بلوچ کا کہنا ہے کہ گودار بشمول مکران کے لوگوں کی ناراضگیاں وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں مگر اس سب کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔
’جب گوادر پاکستان میں شامل ہوا تو یہاں بسنے والوں کا خیال تھا کہ اس فیصلے کے بعد ان کا علاقہ خوشحال ہو گا اور وہ ترقی کے دھارے کا حصہ بنیں گے لیکن دہائیاں گزرنے کے باوجود ایسا کچھ نہ ہو سکا۔ پھر گوادر بندرگاہ تعمیر ہوئی اور لوگوں نے ایک بار پھر خوشحالی اور بنیادی مسائل حل ہونے کے خواب دیکھے لیکن اُن کی تعبیر بھی نہیں ہوئی۔ سنہ 2013 میں سی پیک آیا تو ایک بار پھر امیدیں وابستہ ہوئیں مگر انھیں مایوسی کے علاوہ کچھ نہ ملا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’لوگوں کو خوشحالی کا نعرہ دے کر اگر مزید پسماندگی کی طرف دھکیلا جائے گا اور ساتھ ساتھ یہ توقع بھی رکھی جائے گی کہ لوگ آپ سے خوش ہوں گے اور آپ کو پھولوں کا ہار پہنائیں گے۔۔۔ ایسے کیسے ممکن ہے؟‘
اسماعیل بلوچ کی رائے ہے کہ ’مستقبل میں قوم پرست جماعتیں مزید پس منظر میں چلی جائیں گی۔۔۔ بلوچ یکہجتی کمیٹی نے یہ باور کروایا کہ لوگ مزید ان (قوم پرستوں جماعتوں) کے ساتھ نہیں۔ جو نوجوان قوم پرست ہیں وہ زیادہ تر مکران میں بستے ہیں اور اب بوجوہ ان میں یہ نعرہ مقبول ہو رہا ہے کہ نو پارلیمان اینڈ نو ٹو ڈیموکریسی۔‘
بلوچ ادیب عین قادر کہتے ہیں کہ قوم پرستوں کی سیاست ڈرائنگ روم تک محدود ہے جہاں عام آدمی کی رسائی نہیں۔ ’یہاں کا عام آدمی چاہتا ہے کہ ان کے مسائل کو لے کر کوئی اُن کے ساتھ کھڑا ہو۔ ایسا بلوچستان میں جب بھی ہوا ہے لوگوں نے بھرپور ساتھ دیا ہے یہ سوچے بغیر کہ کھڑا ہونے والا کون ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اب لوگوں کو اپنے مسائل کا حل چاہیے۔ کسی کا بچہ لاپتہ ہے، حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے کسی کا روزگار کا متاثر ہو رہا ہے، کوئی چیک پوسٹوں کا متاثر ہے، کوئی فشنگ ٹرالنگ سے متاثر ہے۔۔۔ وقت کے ساتھ یہاں بسنے والوں کے معاشی مسائل بھی پیچیدہ ہوئے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ جبر کے تحت رہ رہے ہیں اور اس کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کا وہ ساتھ دیتے ہیں۔‘
حمیدہ اختر ایڈووکیٹ کہتی ہیں کہ ’گوادر کی خواتین یکہجتی کے لیے دھرنے میں آئی تھیں۔ ان تمام خواتین کا یہ ہی خیال تھا کہ یکجہتی کمیٹی والے اُن کے لیے کچھ کرنے اور اُن کے لیے آواز اٹھانے آئے ہیں۔‘
’آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ ہم الگ ہو جائیں، ہمیں یہ آزادی چاہیے کے ہمارے جو نوجوان ہیں ان کو کوئی نقصان نہ ہو، ہمارے مستقبل کو کوئی خطرہ نہ ہو، اس لیے خواتین بھی ان کے ساتھ شامل تھیں۔‘
یاد رہے کہ گودار میں دھرنے کے شرکا پر ایک سکیورٹی اہلکار کے قتل سمیت متعدد مقدمات دائر کیے گئے ہیں اور اسی لیے لوگوں بلخصوص نوجوانوں میں خوف کی فضا موجود ہے۔
دھرنے کے سیاسی اثرات معلوم کرنے کے لیے جب بی بی سی گوادر یونیورسٹی پہنچی تو بہت سے نوجوانوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ بیشتر طلبا کا مؤقف تھا کہ بات کرنے کی صورت میں انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اسی طرح بی بی سی کی جانب سے شہر میں متعدد طالب علموں سے بلاواسطہ اور بلاواسطہ بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہ سکیورٹی وجوہات کے باعث بات کرنے کے لیے راضی نہیں ہوئے۔