- مصنف, ریحان فضل
- عہدہ, بی بی سی ہندی
القاعدہ کے فوجی کمانڈر محمد عاطف نے سنہ 1996 کے اواخر میں افغانستان کے پہاڑی سلسلے میں تورا بورا کے مقام پر ایک ایسی ملاقات کا انتظام کیا جو 21ویں صدی کے آغاز پر دنیا کو بدل کر رکھ دینے والی تھی۔
یہ ملاقات امریکہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ’افغان جہاد‘ کا حصہ بننے والے خالد شیخ محمد اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے درمیان ہونی تھی۔
اس میٹنگ میں خالد شیخ محمد نے امریکی طیاروں کو ہائی جیک کر کے انھیں امریکہ کی بلند و بالا عمارتوں سے ٹکرانے کا منصوبہ اسامہ بن لادن کے سامنے رکھا تھا۔
1996 میں اسامہ بن لادن کے سامنے یہ منصوبے پیش کرنے والے خالد شیخ محمد صرف نو برس پہلے تک ایک امریکی یونیورسٹی میں میکینیکل انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔۔
تو اُن نو برسوں میں ایسا کیا ہوا کہ خالد شیخ محمد ایک ایسے ملک کے خلاف دہشت گردی کا منصوبہ بنانے میں مگن ہو گئے جہاں وہ زیر تعلیم تھے؟ مگر اس سے قبل جانتے ہیں خالد شیخ محمد کون ہیں اور اس وقت وہ کہاں موجود ہیں۔
خالد شیخ محمد کون ہیں؟
خالد شیخ محمد 14 اپریل 1965 کو کویت میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد مقامی مسجد کے پیش امام تھے اور اُن کا تعلق پاکستان سے تھا۔
خالد نے 16 سال کی عمر میں اسلامی تنظیم ’اخوان المسلمون‘ کی رکنیت حاصل کی تھی۔
سنہ 1983 میں سیکنڈری سکول کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکہ چلے گئے جہاں انھوں نے ’نارتھ کیرولائنا ٹیکنیکل یونیورسٹی‘ میں داخلہ لیا اور وہاں میکینیکل انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ یہاں اُن کی ملاقات عرب طلبا کا ایک گروپ سے ہوئی جو یہاں پہلے سے ہی زیرِ تعلیم تھے۔
اس گروپ کے افراد کی مذہبی معاملات میں دلچسپی کے باعث انھیں یونیورسٹی کے باقی طلبا ’ملاز‘ کہتے تھے۔ دسمبر 1986 میں خالد نے مکینیکل انجینیئرنگ کی ڈگری مکمل کر لی مگر اس دوران وہ شدت پسندی سے متعلقہ معاملات میں کافی آگے جا چکے تھے۔
سنہ 1987 میں خالد شیخ محمد اسامہ بن لادن کے ساتھ ملے اور افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف ’جنگِ جاجی‘ میں شریک ہوئے۔
نائن الیون حملوں کے سہولت کار اور سنہ 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹرز کو پر حملہ کرنے والے رمزی یوسف بھی خالد شیخ محمد کے بھتیجے تھے۔ رمزی یوسف نے سنہ 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹرز کو تباہ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اگرچہ رمزی کا مشن ناکام ہوا، لیکن اس کا شدت پسندوں کی اُس وقت کی اُبھرتی ہوئی نسل پر گہرا اثر پڑا تھا۔
ٹام میک ملن اپنی کتاب ’فلائٹ 93: دی سٹوری آف دی آفٹرمیتھ اینڈ دی لیگیسی آف امریکن کریج آن 9/11‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر 1993 کے حملے نے انتہا پسندوں کو یہ سمجھنے میں مدد دی تھی کہ امریکی سرزمین پر حملہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی۔‘
افغانستان میں تربیتی کیمپ میں اپنے تجربے اور رابطوں کی بدولت رمزی یوسف جعلی پاسپورٹ کے ذریعے امریکہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے جس کے بعد انھوں نے اپنے ساتھیوں کی ایک ٹیم بنائی تھی اور بموں سے لدی کرائے کی وین ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے نارتھ ٹاور کے گیراج میں بھجوا دی۔ اس دھماکے میں چھ افراد ہلاک اور کئی سو زخمی ہوئے تھے۔ عمارت کو اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا یوسف نے سوچا تھا لیکن وہ امریکہ کے سب سے بڑے شہر کی سڑکوں پر دہشت پھیلانے میں کامیاب رہے تھے۔
یہیں سے دنیا میں انتہا پسندی کا ایک نیا دور شروع ہوا تھا اور اس دوران رمزی یوسف امریکہ سے فرار ہو کر پاکستان پہنچنے میں کامیاب رہے تھے۔
سنہ 1993 کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر دھماکوں میں خالد شیخ محمد نے ’مشیر کا کردار ادا کیا‘
اس واقعے میں خالد شیخ محمد نے مشیر کا کردار ادا کیا تھا۔ انھوں نے ایک بار رمزی یوسف کو اس حملے میں معاونت کے لیے 660 ڈالرز بھیجے تھے۔
لارنس رائٹ نے اپنی کتاب ’دی لومنگ ٹاور: القاعدہ اینڈ دی روڈ ٹو نائن الیون‘ میں لکھا ہے کہ ’یوسف امریکی سرزمین پر حملہ کرنے والا پہلا مسلمان شدت پسند تھا۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہو گی کہ نائن الیون کی بنیاد اُسی دن رکھ دی گئی تھی جب رمزی یوسف نے ٹوئن ٹاورز کی پارکنگ میں اپنی بم سے بھری وین کھڑی کی تھی اور بحفاظت باہر نکل آیا تھا۔‘
9/11 کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ’خالد شیخ محمد کی امریکہ کے خلاف دشمنی اسرائیل کے بارے میں امریکی خارجہ پالیسی کی وجہ سے تھی۔‘
امریکہ سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد خالد شیخ محمد افغانستان کی سرحد کے قریب پاکستانی شہر پشاور گئے جہاں اُن کی ملاقات افغان جنگجو عبدالرصف سیاف سے ہوئی۔
سیاف نے اُن کی زندگی پر خاصا اثر ڈالا تھا۔ انھوں نے پہلے خالد کو فوجی تربیت کے لیے مشرقی افغانستان کے ایک کیمپ میں بھیجا۔ اس دوران اس نے عبداللہ عزام کے ساتھ بھی کام کیا، جنھیں اسامہ بن لادن کا استاد سمجھا جاتا ہے۔
’بوزینکا سکیم فلپائن میں بنائی گئی‘
کتاب ’ہنٹ فار کے ایس ایم‘ کے مطابق ’سنہ 1994 میں چچا اور بھتیجے یعنی خالد شیخ محمد اور رمزی یوسف دونوں فلپائن گئے۔ وہاں دونوں نے صدر بل کلنٹن اور پوپ جان پال دوئم کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی شروع کی لیکن بعد میں فلپائن کی جانب سے سکیورٹی بڑھانے کی وجہ سے یہ منصوبہ منسوخ کر دیا گیا۔‘
’وہاں انھوں نے ایک اور سازش پر کام کیا جس کا نام ’بوزنکا‘ تھا۔ اس میں بحرالکاہل کے علاقے میں بیک وقت 12 امریکی طیاروں کو بموں کے ذریعے تباہ کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ کے ایس ایم (خالد شیخ محمد) نے بم بنانے کے لیے مواد اکٹھا کرنے میں یوسف کی مدد کی۔‘
لیکن چھ جنوری 1995 کو یہ سازش ناکام ہو گئی کیونکہ جس فلیٹ میں یہ دونوں بم بنا رہے تھے اس کے کچن میں آگ لگ گئی۔
وہ دونوں وہاں سے بھاگ گئے لیکن فلپائنی پولیس کو بم بنانے کا سامان اور ایک لیپ ٹاپ ملا جس پر اس سازش سے وابستہ تمام لوگوں کے نام اور پتے درج تھے۔
کیتھی سکاٹ کلارک اور ایڈرین لیوی اپنی کتاب ’دی ایگزائل‘ میں لکھتے ہیں کہ ’جب ہیلی کاپٹر ٹوئن ٹاورز کے قریب پہنچا تو ایف بی آئی کے ایجنٹ نے رمزی یوسف آنکھوں سے پٹی ہٹائی اور ٹاورز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو وہ ابھی تک کھڑے ہیں۔ رمزی نے طنزیہ انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر میرے پاس زیادہ پیسے ہوتے تو یہ کھڑے نہ ہوتے۔‘
تورا بورا میں اسامہ بن لادن سے ملاقات
خالد شیخ محمد کا اگلا قدم سنہ 1993 کا ورلڈ ٹریڈ سینٹر حملہ اور ’بوزینکا‘ منصوبوں کی خامیوں کا بغور مطالعہ کرنا تھا۔
یہاں ان کی زندگی میں اسامہ بن لادن شامل ہوئے جس کے پاس پیسہ بھی تھا اور شاگردوں کی پوری فوج بھی۔ دونوں ایک دوسرے کو جانتے تھے لیکن 1989 کے بعد سے کبھی ملے نہیں تھے۔
القاعدہ کے فوجی کمانڈر محمد عاطف نے سنہ 1996 کے اواخر میں تورا بورا میں دونوں کی ملاقات کا انتظام کیا تھا۔
خالد شیخ محمد نے بن لادن کو 1993 کے ٹوئن ٹاور بمباری اور فلپائن کی مہم کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کیں اور اسے ایک نیا منصوبہ پیش کیا۔
نئی سازش اتنی بے باک تھی کہ بن لادن کو خود بھی اس کی کامیابی پر شک تھا۔
ٹام میک ملن لکھتے ہیں کہ ’خالد بیک وقت دس امریکی طیاروں کو ہائی جیک کرنا چاہتا تھا۔ ان میں سے نو طیارے ورلڈ ٹریڈ سینٹر، پینٹاگون اور کیپیٹل ہل جیسی عمارتوں سے ٹکرا کر انھیں تباہ کرنے کا منصوبہ تھا جبکہ دسویں طیارے کو کسی امریکی ہوائی اڈے پر اتارنے کا پلان تھا جہاں خود خالد شیخ محمد کو امریکہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی کی مذمت میں تقریر کرنی تھی۔‘
اسامہ بن لادن نے یہ منصوبہ سُنا ضرور لیکن خالد سے اس حوالے سے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا تاہم بن لادن کی جانب سے انکار بھی نہیں کیا گیا۔
اس واقعے کے دو برس بعد خالد شیخ محمد کو اسامہ بن لادن کا فون موصول ہوا۔
بن لادن نے خالد کو بتایا کہ انھیں طیاروں کو عمارتوں سے ٹکرانے کا منصوبہ پسند تو ہے لیکن دس طیاروں کو ہائی جیک کرنا اور مشہور عمارتوں سے ٹکرانا بہت پیچیدہ اور ناقابل عمل معلوم ہوتا ہے اور اس کے لیے طیاروں کی تعداد کو کم کرنا ہو گا اور مخصوص اہداف کا انتخاب کرنا ہو گا۔
چار ہائی جیکرز کا انتخاب
ٹیری میک ڈرمیٹ اور جاش میئر اپنی کتاب ’دی ہنٹ فار کے ایس ایم‘ میں لکھتے ہیں کہ ’بن لادن اور خالد شیخ محمد نے طیاروں کی تعداد کو دس سے کم کر کے چار یا پانچ کرنے پر اتفاق کیا۔‘
’اسی دوران جرمنی کے شہر ہیمبرگ سے چار افراد بن لادن کے افغان کیمپ میں شامل ہونے آئے۔ وہ برسوں سے جرمنی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ وہ چیچنیا جا کر لڑنے کے لیے تیار تھے لیکن ان سے کہا گیا کہ چیچنیا جانے کے بجائے پہلے افغانستان جانا ہی بہتر ہے۔‘
کتاب ’دی ہنٹ فار خالد شیخ محمد‘ کے مطابق ’انھیں مغرب میں رہنے کا تجربہ تھا۔ عربی کے علاوہ دیگر زبانیں بھی جانتے تھے۔ ان کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ بھی نہیں تھا۔ معمولی عسکری تربیت کے بعد، انھیں کریش کورس کے لیے کراچی بھیج دیا گیا۔‘
خالد شیخ محمد نے ان لوگوں کو بتایا کہ انھیں طیارہ اڑانے کی ٹریننگ حاصل کرنی پڑے گی۔ خالد کے مشورے پر انھوں نے طیارہ اڑانے کی تربیت حاصل کرنے کے لیے امریکی تربیتی سکولوں میں درخواست دی اور انھیں امریکی ویزے بھی مل گئے۔
خالد دو سال کے اندر ایسے 19 لوگوں کو امریکہ بھیجنے میں کامیاب رہے۔
اس دوران بن لادن نے بار بار خالد سے کہا کہ وہ جلد از جلد حملہ کرے لیکن انھوں نے کوئی جلد بازی نہیں دکھائی اور 2001 کے موسم گرما کا انتظار کیا۔
ٹیری میکڈرمٹ اور جاش میئر لکھتے ہیں کہ ’خالد نے چوتھے طیارے سے وائٹ ہاؤس پر حملہ کرنے کے منصوبے کے بارے میں اپنے ساتھی محمد عطا کی بات مانتے ہوئے ہدف تبدیل کر دیا کیونکہ اس کا رقبہ زیادہ بڑا تھا اور اسے تباہ کرنا زیادہ مشکل تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حملے کے لیے امریکی پارلیمنٹ، کیپٹل ہل کا انتخاب کیا گیا اور حملے کی تاریخ کو مزید بڑھا دیا گیا تاکہ تعطیلات کے بعد جب حملہ کیا جائے تو عمارت میں امریکی اراکین پارلیمان موجود ہوں۔‘
منصوبے کی تکمیل کے دوران خالد کراچی میں رہے اور خود کو القاعدہ کی قیادت سے بالکل الگ تھلگ رکھا۔ اس دوران انھوں نے متعدد ای میل اکاؤنٹس کا استعمال کیا۔
میکڈرمٹ اور میئر لکھتے ہیں کہ ’اس کی ای میل آئی ڈیز میں سے ایک silverunderscorecrack@yahoo.com تھی۔ جب اس کا دوسرا ای میل goldunderscorecrack@yahoo.com تھا۔ دونوں اکاؤنٹس کے لیے اس کا پاس ورڈ ’ہاٹ میل‘ تھا۔
خالد شیخ محمد نے ایک انٹرنیٹ کیفے میں 9/11 کے حملے دیکھے
خالد شیخ محمد نے اپنے شاگردوں کو یہ بھی بتایا کہ دنیا کے بیشتر ممالک کا ویزہ پاسپورٹ پر دیا جاتا ہے لیکن پاکستان کا ویزا الگ کاغذ پر دیا جاتا ہے۔
اس ویزا کو دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ویزوں پر چھپی ہوئی تاریخوں کو بھی بلیچ کے ذریعے ہٹایا جا سکتا ہے۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ الجزائر اور دیگر افریقی ممالک کے طلبا اسلام آباد کی بلیک مارکیٹ میں اپنے پاسپورٹ فروخت کرتے ہیں۔ وہ وہاں سے خریدے جا سکتے ہیں۔
ایک طرح سے خالد 9/11 آپریشن کے مکمل انچارج تھے۔ اُن کے ذریعے دنیا بھر میں القاعدہ کی سرگرمیوں کے لیے ہزاروں ڈالر تقسیم کیے گئے جس میں زیادہ تر رقم نقد دی گئی۔
ٹیری میکڈرمٹ اور جاش میئر لکھتے ہیں کہ ’اگست 2001 میں خالد کو مطلع کرنے کے لیے ایک پیغام رساں کراچی بھیجا گیا تھا کہ عطا نے حملے کے لیے 11 ستمبر کی تاریخ کا انتخاب کیا ہے۔ اگست کے آخر میں خالد خود افغانستان گئے تاکہ بن لادن کو یہ خبر پہنچا سکیں۔‘
اس کتاب میں کہا گیا ہے کہ ’خالد شیخ محمد نے کراچی میں ایک انٹرنیٹ کیفے میں طیارے کے ٹاورز سے ٹکرانے کا منظر دیکھا۔‘
خالد شیخ محمد شروع سے ہی القاعدہ کے جنگجوؤں میں بہت مقبول تھے۔ وہ انھیں ایک ذہین، مؤثر اور متوازن مینیجر سمجھتے تھے جو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے پوری توجہ سے کام کرتا تھا۔
ایک امریکی انٹیلیجنس افسر نے بعد میں اعتراف کیا کہ خالد شیخ محمد کسی فارچیون 500 کمپنی کے سی ای او کی طرح کام کرتا تھا۔ وہ دوسروں کی صلاحیتوں اور خوبیوں کو استعمال کرنا جانتا تھا۔ اسے لوگوں سے تعلقات استوار کرنے اور کام کروانے میں مہارت حاصل تھی۔
خالد ان لوگوں کو بہت اہمیت دیتا تھا جو اردو کے ساتھ ساتھ عربی بھی بول سکتے تھے کیونکہ القاعدہ کے سرکردہ رہنما عرب تھے۔
خالد کی ایک اور خاصیت القاعدہ میں بھرتی ہونے والے ہر نئے جنگجو پر ذاتی توجہ دینا تھی۔
یوسری فاؤدا اور نک ییلڈنگ نے اپنی کتاب ’ماسٹر مائنڈز آف ٹیرر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’یہ خالد کی صلاحیتوں کی بدولت تھا کہ وہ اپنے زیادہ تر ساتھیوں کو دنیا میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بچھائے گئے جدید ترین جال سے بچانے میں کامیاب رہا۔‘
’نائن الیون سے کچھ عرصہ قبل، بن لادن کو اکثر یہ کہتے ہوئے سنا جاتا تھا کہ وہ کچھ بڑا کرنے جا رہے ہیں لیکن خالد شیخ محمد نے اپنے اردگرد کے لوگوں کو اپنے منصوبوں کے بارے میں ذرا سی بھی خبر نہیں ہونے دی، اس کے بجائے انھوں نے اپنا بہت سا وقت اور توانائی اپنے کام میں وقف کر دی اور اس دوران بن لادن کو خاموش رہنے کی ہدایت کرتے رہے۔‘
خالد شیخ محمد کی گرفتاری
نائن الیون حملوں کے 17 ماہ بعد تک خالد شیخ محمد کو سی آئی اے نہیں پکڑ سکی تھی۔ تاہم یکم مارچ 2003 کو ایک مخبر کی اطلاع پر خالد شیخ محمد کو راولپنڈی کے ایک گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔
اُن سے اگلے 48 گھنٹے تک سخت پوچھ گچھ کی گئی لیکن انھوں نے کچھ بھی ظاہر کرنے سے انکار کر دیا۔۔
القاعدہ کے جنگجوؤں کو گرفتاری کے بعد پہلے 48 گھنٹے خاموش رہنے کی تربیت دی گئی تھی تاکہ ان کے ساتھیوں کو اپنے اڈے تبدیل کرنے کا وقت مل سکے۔
کیتھی سکاٹ کلارک اور ایڈرین لیوی اپنی کتاب ’دی ایگزائل‘ میں لکھتے ہیں کہ ’خالد کو بیڑیوں سے باندھ دیا گیا، آنکھوں پر پٹی باندھی گئی اور پھر اس کے اوپر ایک چوغہ ڈال دیا گیا۔ پھر اسے افغانستان لے جایا گیا۔‘
اس نے بعد رینڈیشن رپورٹ کو دیے گئے ایک بیان میں انھوں نے بتایا تھا کہ ’میرے تمام کپڑے اتار دیے گئے اور مجھے برہنہ کر دیا گیا۔‘
ڈاکٹروں کے معائنہ کے بعد اُن کے ہاتھ چھت سے لٹکی ہوئی سلاخ سے بندھے ہوئے تھے۔ اس سے پوچھ گچھ کرنے والے تین لوگ تھے، ایک مرد اور دو عورتیں۔ دس اور محافظ چہروں پر ماسک لگائے کھڑے تھے۔
جب بھی وہ تعاون کرنے سے گریزاں ہوتے تو وہ انھیں مارتے۔ اس ابتدائی تفتیش اور تشدد کے بعد انھیں گلف سٹریم کے طیارے میں پولینڈ لے جایا گیا۔
’خالد کو 183 مرتبہ واٹر بورڈ کیا گیا‘
پولینڈ میں قید کے دوران خالد کے ساتھ اتنی سختی اور تشدد ہوا کہ وہ موت کے دھانے پر پہنچ گئے۔
وہاں موجود ڈاکٹر جیمز مچل نے کیتھی سکاٹ کلارک اور ایڈرین لیوی کو بتایا کہ ’جب بھی انھوں نے تعاون نہیں کیا تو انھیں دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے اُن کے جسم، چہرے اور منھ پر گھونسے مارے جاتے۔‘
خالد شیخ محمد نے بعد میں ریڈ کراس کو بتایا کہ ’میرے گلے میں پلاسٹک کا ایک لچکدار کالر باندھا گیا تھا اور گارڈز میرا سر پکڑ کر بار بار دیواروں سے ٹکراتے تھے۔‘
خالد کی انگلی سے ایک ڈیوائس باندھی گئی تھی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا اس کے جسم کے مختلف حصے کام کر رہے ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد انھیں پانی میں ڈبو دیا گیا یہاں تک کہ اُن کی سانسیں رک گئیں۔ وقفے کے بعد یہ عمل دوبارہ دہرایا جاتا رہا۔‘
انھیں پانی میں ڈبونے کا یہ عمل کم از کم 183 بار ہوا۔ خالد شیخ محمد نے ریڈ کراس کے ساتھ ایک انٹرویو میں یاد کیا کہ ’بدترین دن وہ تھا جب مجھے آدھے گھنٹے تک مسلسل مارا پیٹا گیا۔ میرا سر دیوار سے اس زور سے ٹکرایا گیا کہ خون بہنے لگا۔ اس کے بعد میرے ننگے بدن پر برف کا ٹھنڈا پانی ڈالا گیا۔‘
جب سی آئی اے کے خالد شیخ محمد پر اس نوعیت کے تشدد کی خبریں منظر عام پر آئیں تو انھیں 2006 میں گوانتانامو بے بھیج دیا گیا۔
اتنے ٹارچر کے بعد بھی سی آئی اے کو اسامہ بن لادن اور الزواہری کے ٹھکانے کا پتہ نہیں چل سکا۔
ٹیری میکڈرمٹ اور جاش میئر لکھتے ہیں کہ خالد کو ممکنہ طور پر الزواہری کے ٹھکانے کا علم تھا کیونکہ اس کی گرفتاری سے ایک دن قبل الزواہری سے ملاقات ہوئی تھی۔‘
خالد شیخ محمد آج بھی گوانتنامو بے میں قید ہے۔ امریکہ نے خالد شیخ محمد سمیت نائن الیون حملوں کے منصوبہ سازوں کے ساتھ مقدمے سے قبل ہونے والی ’ڈیل‘ اگست کے اوائل میں منسوخ کر دی تھی۔
امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ان افراد نے استغاثہ کی جانب سے عدالت میں سزائے موت کی درخواست نہ کرنے کے بدلے اعترافِ جرم کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور خیال کیا جا رہا تھا کہ اس معاہدے کے باعث شاید یہ مبینہ حملہ آور سزائے موت سے بچ جاتے۔
اسی باعث متاثرین کے کچھ خاندانوں کی جانب سے اس معاہدے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے بعد امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے تینوں ملزمان کے ساتھ مقدمے کی کارروائی سے قبل طے پانے والی ڈیل کو منسوخ کر دیا تھا۔