- مصنف, فرحت جاوید
- عہدہ, بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
(انتباہ: اس تحریر میں موجود مواد بعض قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتا ہے)
یہ 27 نومبر 1973 کی رات تھی۔
ارونا شنباگ کنگ ایڈورڈز کالج ممبئی میں بطور نرس اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھیں جب اُن پر حملہ ہوا۔ سوہانلال بھرتا نامی حملہ آور اِسی ہسپتال میں کام کرنے والا ایک وارڈ اٹینڈنٹ تھا۔ ارونا کا ریپ کیا گیا اور پھر انھیں کتے کے گلے میں ڈالنے والے پٹے کی مدد سے گلا گھونٹ کر قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔
قتل کی اس کوشش کے دوران ارونا کے دماغ کو آکسیجن کی فراہمی منقطع ہو گئی۔ اس حملے میں اگرچہ اُن کی جان تو بچ گئی مگر 26 سالہ ارونا اگلی چار دہائیوں تک، اسی ہسپتال میں کومہ کی حالت میں زندہ رہیں۔
بعدازاں سوہانلال بھرتا نامی حملہ آور کو ’اقدام قتل اور ڈکیتی‘ کے الزامات ثابت ہونے پر سات سال قید کی سزا ہوئی تاہم ریپ کے الزامات کو چارج شیٹ سے خارج کر دیا گیا اور انڈین اخبارات کے مطابق جیل سے رہائی کے بعد سوہانلال کو اسی شہر کے ایک سرکاری ہسپتال میں دوبارہ نوکری بھی مل گئی۔ دوسری طرف اس ہولناک واقعے کے 42 سال بعد یعنی سنہ 2015 میں ارونا کومہ کی حالت میں اُسی ہسپتال میں وفات پا گئیں جہاں اُن کا ریپ ہوا تھا۔
یہ انڈیا میں طبی عملے کی ایک خاتون کا پہلا ایسا ریپ تھا جو بڑے پیمانے پر ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہوا۔ تب سے آج تک حالات ابتر ہی ہوئے ہیں اور ہسپتالوں میں طبی عملے پر تشدد اور خاص طور پر خواتین کے خلاف جنسی تشدد اور ہراسانی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ حال ہی میں انڈیا ہی کے شہر کلکتہ میں ایک زیرِ تربیت ڈاکٹر کے ریپ اور ہولناک تشدد کے بعد پاکستان میں بھی یہ بحث چھڑی ہے کہ یہاں طبی عملہ کو کیا مشکلات درپیش ہیں۔
بی بی سی نے اس بارے میں پاکستان بھر میں درجن بھر ڈاکٹروں اور نرسز سے بات کی ہے۔
ان خواتین ڈاکٹروں اور نرسز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین طبی کارکنان کی ایک بڑی تعداد کو مریضوں، ان کے تیمارداروں اور لواحقین کی جانب سے جسمانی اور زبانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ بیشتر سرکاری ہسپتالوں میں سکیورٹی کا انتہائی ناقص نظام ہے جبکہ احتسابی عمل سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
تاہم ان خواتین طبی کارکنان کے دعویٰ ہے کہ جو چیز اُن کے لیے زیادہ پریشان کُن ہے وہ ہسپتال میں ہی موجود اپنے دیگر ساتھیوں کی جانب سے اُن کی جنسی ہراسانی اور بدسلوکی ہے۔
بی بی سی کی تحقیق میں خطرناک رجحان سامنے آیا ہے۔ ہسپتالوں میں ہراسانی کے واقعات پر خاموشی، شرم اور خوف کا ایک ایسا کلچر ہے جو ان معاملات کو بلا روک ٹوک جاری رکھے ہوئے ہے۔
ایک درجن سے زیادہ ڈاکٹروں اور نرسوں نے بی بی سی کے ساتھ اپنے بیانات شیئر کیے ہیں جن میں انھوں نے ان حملوں اور بدسلوکیوں کا ذکر کیا جو انھیں یا ان کی ساتھی خواتین کو گذشتہ چند برسوں میں پیش آئے، خاص طور پر سرکاری ہسپتالوں میں۔ زیادہ تر خواتین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی ہے، کیونکہ انھیں اپنے اہلخانہ کی جانب سے ردعمل، نوکری سے ہاتھ دھونے اور ’عزت‘ کھو دینے کا خوف تھا۔
’سب سے زیادہ خطرہ آپریشن تھیٹر میں ہوتا ہے‘
کراچی کے ایک نجی ہسپتال سے ایک خاتون سول سروسز ہسپتال کی ایم ایل او کے دفتر پہنچیں۔ یہیں سندھ کا پہلا اینٹی ریپ سینٹر بھی قائم ہے۔ انھوں نے عملے کو رپورٹ لکھوائی اور الزام عائد کیا کہ دس دن پہلے شہر کے ایک نجی ہسپتال میں آپریشن کے دوران ایک سرجن نے ان کا ریپ کیا ہے۔ اُن کا میڈیکل چیک اپ کیا گیا اور رپورٹس تیار کی گئیں، مگر خاتون نے بوجوہ فیصلہ کیا کہ وہ ’اس بات کو نہیں بڑھا سکتیں۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک نرس کہتی ہیں کہ ’نرسز کے لیے تو سب سے زیادہ خطرناک جگہ آپریشن تھیٹر ہوتا ہے۔‘ وہ بتاتی ہیں کہ آپریشن تھیٹر میں جونیئر نرسز کے ساتھ سبھی سینیئر ڈاکٹرز اور زیر تربیت ڈاکٹرز موجود ہوتے ہیں۔ یہاں نرسز، خاص طور پر نوجوان اور زیر تربیت نرسز کا کام ان ڈاکٹرز کو آپریشن کے دوران مختلف آلات پکڑانا اور ان کی معاونت کرنا ہوتا ہے۔
’ہم بہت الرٹ رہتے ہیں کہ کہیں کچھ غلط نہ ہو جائے اور پریشر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے میں آپ کے ارد گرد موجود ڈاکٹرز میں سے کچھ جب غلط انداز میں چھونے کی کوشش کرتے ہیں تو سمجھ نہیں آتی کہ کیا کریں۔‘
بی بی سی کو ایک اور نرس نے، جو اسلام آباد میں زیرتربیت تھیں، بتایا کہ انھیں اپنی ٹریننگ چھوڑنا پڑی کیونکہ آپریشن تھیٹر میں ایک ڈاکٹر انھیں جنسی طور پر ہراساں کرتے تھے۔
’وہ مجھے غیرمناسب انداز میں چھونے کی کوشش کرتے تھے۔ میں سرجری کے آلات پکڑاتی تو میرا ہاتھ پکڑ لیتے۔ بار بار میرے ساتھ چپکنے کی کوشش کرتے۔ کندھے سے کندھا ملاتے، اشارے کرتے اور مجھے سب خاموشی سے برداشت کرنا پڑتا تھا۔ کیونکہ میرے والد فوت ہو گئے تھے، میں نے صرف میٹرک کیا ہوا تھا اور اب سکالرشپ پر نرسنگ کا کورس کر رہی تھی۔ وہ کافی سینیئر ڈاکٹر تھے۔ میں شکایت لگا بھی دیتی تو کسی نے نہیں سننا تھا۔‘
اُن کے مطابق انھوں نے ہراسانی سے تنگ آ کر نرسنگ کی تربیت کو خیرباد کہہ دیا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک اور نرس الزبتھ تھامس (فرضی نام) بتاتی ہیں کہ جونیئر اور سینیئر نرسز کو مریضوں کے لواحقین بھی ہراساں کرتے ہیں اور ہسپتال کے عملے کے افراد بھی۔ ’شکایت لگانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ کوئی سنتا نہیں ہے۔ اگر آپ ایک جونیئر نرس ہیں پھر تو آپ کی کوئی شنوائی نہیں ہو گی۔ عام کلچر تو یہ ہے کہ تحقیقات کیے بغیر نرس پر ہی الزام لگا دیا جاتا ہے۔ صاف کہہ دیا جاتا ہے کہ تمھاری ہمت کیسے ہوئی ایک سینیئر ڈاکٹر پر جھوٹا الزام لگانے کی؟‘
ڈاکٹر سمعیہ سید، جو اس وقت چیف پولیس سرجن کراچی ہیں، کہتی ہیں کہ مسئلہ احتسابی عمل پر عدم اعتماد کا ہے۔
’ایسا نہیں کہ یہ واقعات نہں ہو رہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ واقعات رپورٹ نہیں ہو رہے۔ نرس کو تو کوئی مریض بھی تنگ کر سکتا ہے، بدتمیزی کر سکتا ہے، جو زبانی بھی ہو سکتی ہے اور فزیکل بھی، وہ غیر مناسب انداز میں چھو سکتا ہے، جنسی طور پر ہراساں کر سکتا ہے۔ ایسے تو ہمارے پاس بہت کیسز ہیں، بہت واقعات ہیں۔‘
پاکستان میں خواتین ڈاکٹروں کے خلاف جنسی حملوں کے سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔
لیکن امریکی ادارے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ نے اپنی رپورٹس میں نجی سطح پر کیے گئے سرویز کا ڈیٹا شائع کیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں طب کے شعبے میں 95 فیصد خواتین عملے کو زبانی بدسلوکی اور بعض اوقات جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 59 فیصد خواتین نرسیں کام کی جگہ پر ہراسانی کا شکار ہونے کو رپورٹ کیا جبکہ 29 فیصد کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
جرنل آف میڈیسن کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 30 فیصد خواتین ڈاکٹروں کو کسی نہ کسی صورت میں جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
پاکستان اکنامک سروے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 24 کروڑ سے زیادہ کی آبادی والے ملک پاکستان میں صرف 2 لاکھ 99 ہزار ڈاکٹر ہیں جن میں خواتین کی تعداد نصف سے بھی کم ہے جبکہ نرسوں کی تعداد 1 لاکھ 27 ہزار ہے۔
’نرس نے ریپ کے بعد چھت سے چھلانگ لگائی اور کومہ میں چلی گئیں‘
ڈاکٹر سمعیہ نے ایک اور کیس کا حوالہ دیا جس میں ایک نوجوان نرس کو مبینہ طور پر گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔
’ایک سرکاری ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے ایک نرس کو ورغلا کر اور جھانسہ دے کر اپنے ہاسٹل میں بلایا جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ لیکن وہ وہاں تنہا نہیں تھے بلکہ ان کے ساتھ ان کے دو دوست ڈاکٹر بھی موجود تھے۔ اس لڑکی نے وہاں چھت سے چھلانگ لگا دی اور پھروہ کومہ میں چلی گئی۔ اس نوجوان نرس کا ریپ کیا گیا تھا۔ اس میں کچھ بھی رضامندی سے نہیں ہوا تھا۔ مگر اس لڑکی نے فیصلہ کیا کہ وہ اس معاملے کو رپورٹ نہیں کرے گی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’وہ نرس آج کہاں ہے، مجھے نہیں پتا۔ اس نے یہ جاب چھوڑ دی اور چلی گئی۔ کیس چلاتی تو اس پر ہی الزام لگتا کہ وہ تھی ہی ایسی۔ آخر کس کس سے لڑتی، اس لیے جاب چھوڑ کر چلی گئی۔‘
’ایک اور سرکاری ہسپتال کی ڈاکٹر کو کئی ہفتے تک بلیک میل کیا جاتا رہا۔ انھیں بلیک میل کرنے والا شخص بھی ایک ڈاکٹر ہی تھا جنہوں نے ہسپتال کے واش روم میں لگے روشن دان سے ان کی ویڈیو بنا لی تھی۔ لیڈی ڈاکٹر نے اسی ہسپتال کی بعض سینیئر خواتین ڈاکٹرز کی مدد حاصل کی جنھوں نے پولیس سے رابطہ کیا اور اس معاملے کو حل کروانے کی کوشش کی۔‘
’لیڈی ڈاکٹر نہیں چاہتی تھیں کہ یہ معاملے لوگوں یا ان کے اہلخانہ تک پہنچے۔‘
’ایک اور نوجوان ڈاکٹر کے ساتھ ایک سینیئر ڈاکٹر نے بدتمیزی کی اور انھیں جنسی طور پر ہراساں کیا۔ ان خاتون نے اپنے شوہر اور سسر کی مدد سے شکایت لگائی اور ہراسمنٹ کی یہ انکوائری اگلے چھ مہینے تک چلتی رہی۔ یہ ڈاکٹر انکوائری کمیٹی کے ساتھ مکمل تعاون کرتی رہیں مگر آخر میں کچھ نہیں ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس تمام مدت کے دوران ہسپتال میں دیگر ساتھیوں نے بھی ان سے دور رہنا شروع کر دیا اور انھیں سماجی طور پر تنہا کر دیا گیا۔‘
پنجاب کے ایک سرکاری ہسپتال میں تعینات ایک خاتون ڈاکٹر نے بتایا کہ ہسپتالوں میں ایسی کوئی باضابطہ کمیٹیاں موجود نہیں ہیں جہاں خواتین طبی عملہ مکمل اعتماد کے ساتھ اپنی شکایات پہنچا سکے۔ ’جو کمیٹی بنتی ہے اس میں یا تو وہی ڈاکٹرز موجود ہوتے ہیں جو ہراسانی کے واقعات میں ملوث ہوتے ہیں یا ان کے دوست احباب ان کمیٹیوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کا ایک پلیٹ فارم ہے مگر آپ دیکھیں وہاں بھی تو یہی لوگ ہیں نا، پھر کوئی کیوں شکایت لگا کر اپنے زندگی مزید مشکل بنائے گی؟‘
’ڈیوٹی پر (ڈاکٹر) لڑکی ہونی چاہیے، اور پیاری ہونی چاہیے‘
ڈاکٹر آمنہ (فرضی نام) کے لیے آج سے آٹھ سال قبل جب وہ ایک سرکاری ہسپتال میں بطور ریذیڈنٹ آفیسر کام کر رہی تھیں، مریضوں سے بھرے وارڈ کو کا انتظام چلانے سے بھی بڑا دباؤ وہ نظریں تھیں جو مسلسل ان کا جائزہ لے رہی ہوتی تھیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’وہ شخص میرا سینیئر ڈاکٹر تھا اور اس کا بیک گراونڈ خاصا مضبوط تھا۔ وہ مجھ سے بلاوجہ فرینک ہونے کی کوشش کرتا۔ میں وارڈ میں مریض چیک کر رہی ہوتی تو میرے ساتھ چپک کر کھڑا ہونے کی کوشش کرتا۔ میرے ہاتھ میں فائل دیکھ کر اس پر جھکنے کی کوشش کرتا۔ اوچھے اور معانی خیز جملے کستا اور کسی نہ کسی طرح چھونے کی کوشش کرتا۔ سب سے مشکل وقت میری رات کی شفٹ ہوتی تھی۔ صبح تین، چار بجے وارڈ میں آ جاتا اور فضول باتیں کرنے کی کوشش کرتا۔‘
ان خاتون ڈاکٹر نے اس رویے سے تنگ آ کر ہسپتال انتظامیہ کو ان ڈاکٹر کے رویے کی شکایت لگائی۔ تاہم اُن کے مطابق انھیں کچھ اِن الفاظ میں جواب دیا گیا: ’مجھے کہا گیا کہ تمہیں یہاں آئے ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اور اس بات کا کیا ثبوت ہے تمہارے پاس۔۔۔ ہم اس شخص کو سات سال میں ٹھیک نہیں کر پائے، تمہاری شکایت سے کچھ نہیں بدلے گا اور تمھاری بات پر کوئی یقین بھی نہیں کرے گا۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ جب خواتین طبی کارکنان ہراساں کیے جانے کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں تو اُن کی ’حوصلہ شکنی‘ کی جاتی ہے۔
’ڈاکٹرز ایسے رویوں اور ہراسانی کی شکایات بھی لگاتی تھیں، مگر کہا جاتا کہ ثبوت بھی لے کر آئیں۔ اور اکثر ڈاکٹرز اور نرسز نے ویڈیوز بنا کر بھی واقعات رپورٹ کیے، مگر کچھ نہیں ہوا۔ ایسے ہراساں کرنے والے ڈاکٹر کو دو، تین مہینوں کے لیے کسی اور وارڈ میں بھیج دیا جاتا تھا اور پھر وہ واپس آ جاتا۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شعبہ طب سے تعلق رکھنے والی کئی خواتین نے بتایا کہ ایسا بھی ایک پیٹرن موجود ہے جہاں خواتین کو ان کے ’لڑکی ہونے اور خوبصورت ہونے کی وجہ سے ایک مخصوص انداز میں ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر سعدیہ جو اب ایک نجی ہسپتال میں جاب کر رہی ہیں، نے ہمیں ان دنوں کے بارے میں بتایا جب وہ ایک سرکاری ہسپتال میں ہاؤس جاب کر رہی تھیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’جب میں میڈیسن وارڈ میں تھی تو ہمارے ایک سینیئر کنسلٹنٹ ڈاکٹر تھے، وہ اس وارڈ میں ڈاکٹروں کی ڈیوٹی اور روٹیشن یہ دیکھ کر لگاتے تھے کہ لڑکی ہونی چاہیے اور پیاری ہونی چاہیے۔ پھر وہاں ہاؤس آفیسر آف دی منتھ کا ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا گیا تو ہر مہینے اس ایوارڈ کی شرط اور ضابطہ یہی ہوتا تھا کہ بس ایوارڈ اس ڈاکٹر کو ملے گا جو لڑکی ہو اور پیاری ہو۔ تب ہم یہ بھی سنتے تھے کہ اس کی تو شادی ہو گئی ہے، اب یہ ہمارے کسی کام کی نہیں۔ اس کو ایوارڈ دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ایسے رویوں سے متعلق انتظامیہ سے بات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر ’ان افراد کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، انھیں کوئی نتائج نہیں بھگتنا پڑتے، اور ان کے لیے تمام راستے پہلے کی طرح ہموار ہی رہتے تھے۔‘
’انجیکشن لگاؤ ورنہ مار دوں گا‘
ایک طرف ہسپتالوں اور صحت کے مراکز میں ساتھی طبی عملے کی جانب سے ہراسانی جیسے واقعات کا خوف رہتا ہے تو دوسری جانب ان ڈاکٹرز اور نرسز کو ہسپتال آنے والے مریضوں کے لواحقین کے حملوں کا بھی ڈر ہوتا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کم از کم تین خواتین ڈاکٹرز نے خود پر ہونے والے حملوں سے متعلق بتایا کہ حملہ آور مریض یا تیماردار نہیں بلکہ عام شہری تھے جو نشے کی حالت میں ہسپتال میں داخل ہو گئے۔
ان ہسپتالوں میں سکیورٹی کا خاطر خواہ انتطام نہیں ہوتا اور کوئی بھی شہری ہسپتال میں داخل ہو سکتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں حالات بدتر ہیں۔
ڈاکٹر سمعیہ سید کہتی ہیں کہ ’سرکاری ہسپتال ایک پبلک پراپرٹی ہیں تو ان ہسپتالوں میں کام کرنے والے طبی عملے، چاہے وہ مرد ہوں یا خواتین، سبھی کو پبلک پراپرٹی ہی سمجھا جاتا ہے۔ یعنی وہ جو شیشہ کسی نے توڑنا ہے تو میرے سر پر بھی توڑا جا سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر سعدیہ کہتی ہیں کہ ان کی کئی ساتھی ڈاکٹروں کو متعدد بار جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ’ان واقعات میں ہسپتال کا عملہ یا کسی مریض کے لواحقین ملوث نہیں تھے بلکہ نشے کی حالت میں ہسپتال کا چکر لگانے والے لوگ ملوث ہوتے۔ مثلا ایک شام میری کولیگ کچھ دیگر ڈاکٹرز کے ساتھ دوسرے وارڈ میں جا رہی تھی تو انھیں شراب کے نشے میں دھت ایک شہری نے چھیڑنا شروع کر دیا۔ ایک بار ایک اور ڈاکٹر دوست پر حملہ کر دیا گیا۔ اس موقع پر وہاں موجود دیگر ڈاکٹرز نے اس شخص کو وہاں سے بھگایا۔ مگر اس تمام صورتحال میں وہاں سکیورٹی گارڈز موجود نہیں تھے۔‘
یہ واقعات کراچی کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں پیش آئے۔
نرس الزبتھ تھامس کہتی ہیں کہ ایسے واقعات عام ہیں کہ جب شراب پینے کے بعد شہری ہسپتالوں میں خواتین سٹاف کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
’ایک بار ہسپتال میں ایک آدمی آیا۔ وہ شراب کے نشے میں دھت تھا۔ ہمیں دور سے ہی بدبو آ رہی تھی۔ وہ بار بار فی میل ڈاکٹر اور ہمارے اوپر گرنے کی کوشش کرتا۔ ہمیں چھونے کی کوشش کرتا کہ ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرتا۔ میرے ساتھ موجود ڈاکٹر کا دوپٹہ کھینچ لیا۔ ایسے موقع پر ہم بہت ڈر جاتے ہیں کہ اب کیا کریں۔ اس آدمی کا علاج کریں یا اپنا تحفظ کریں۔ ہم بہت بے بس محسوس کرتے ہیں۔ ‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں بطور ڈینٹسٹ کام کرنے والی ایک ڈاکٹر نے بھی ایسا ہی ایک واقعہ شیئر کیا۔
’میرے روم میں ایک شخص آیا جو شراب کے نشے میں دھت تھا۔ اس نے کہا میں اس کے دانت چیک کروں، مجھے محسوس ہوا کہ کچھ غلط ہے مگر مریض تو مریض ہوتا ہے اور بطور ڈاکٹر ہم کسی مریض کے چیک اپ سے انکار نہیں کر سکتے۔ میں نے انھیں بیٹھنے کا کہا مگر اس شخص نے میرے اوپر گرنے کی کوشش کی۔ میرے شوہر بھی اسی روم میں موجود تھے اور انھوں نے اس شخص کو دیکھ لیا اور وہ اور دیگر عملہ بھاگتے ہوئے آئے اور اس آدمی کو ہسپتال سے نکال دیا۔ میں آج تک یہ واقعہ بھول نہیں پائی۔‘
پاکستان اکنامک سروے 2023 کے مطابق ملک میں سرکاری ہسپتالوں کی تعداد صرف 1284 ہے۔ لیکن یہاں سکیورٹی کے انتظامات انتہائی ناقص ہیں اور بیشتر ہسپتالوں میں سی سی ٹی وی کیمرے موجود نہیں، یا کم ہیں یا کام ہی نہیں کرتے۔
ان تمام ہسپتالوں میں ہر روز ہزاروں مریض اور ان کے اہلخانہ آتے ہیں اور اب طبی عملے پر حملے ایک عام سی بات ہے۔
ڈاکٹر سمعیہ بتاتی ہیں کہ ان پر پہلی بار ایک پرتشدد ہجوم نے اس وقت حملہ کیا جب انھیں اپنا کیریئر شروع کیے ہوئے صرف چھ سال ہوئے تھے۔
’میرے ساتھ تو پرتشدد ہجوم کے حملوں کے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ یہ حملے مریضوں کے لواحقین نے بھی کیے ہیں اور خود میرے اردگرد موجود ڈاکٹروں نے بھی۔ ایک بار مجھے تین خواتین کی میتوں کا پوسٹ مارٹم کرنا تھا۔ مگر ان کے اہلخانہ نے کہا کہ انھیں پوسٹ مارٹم نہیں کروانا۔ پھر 50، 60 لوگوں کا ہجوم جمع ہو گیا اور مجھے دھکیل کر دیوار سے لگا دیا گیا۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے میں نہیں کرتی پوسٹ مارٹم مگر آپ لوگ مجھے باہر تو جانے دیں۔ مگر وہ مجھے وہاں سے نکلنے بھی نہیں دے رہے تھے۔ لوگوں کے ہجوم کے حملے تو عام سی بات ہے۔ ہمارے ہسپتالوں میں سکیورٹی کا انتظام نہیں ہے۔ اگر ہے تو بہت ناقص ہے۔ ابھی سندھ حکومت نے کچھ سکیورٹی پوسٹیں لگائی ہیں مگر یہ بہت کم ہے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ حال ہی میں ان کے اپنے ساتھیوں نے انھیں ہراساں کیا۔
’میرے اپنے ساتھی ڈاکٹروں نے مجھے کمرے میں لاک کر دیا۔ وہ مجھ سے زبردستی ایک رپورٹ پر سائن کروانا چاہتے تھے۔ انھوں نے کہا دستخط کرو ورنہ تمہیں اندازہ نہیں ہم تمہارے ساتھ کیا کریں گے۔ باہر موجود لوگوں نے میرے کمرے کا دروازہ بجا بجا کر مجھے باہر نکالا، ورنہ پتا نہیں کیا ہو جاتا۔ میں اب بھی اس واقعے کے بارے میں بات نہیں کر سکتی۔ میں کبھی اس کمرے میں دوبارہ نہیں جا سکتی تھی۔ میں نے کیس کیا، ہر جگہ گئی مگر مجھے آج تک انصاف نہیں ملا۔‘
ڈاکٹر سعدیہ نے بتایا کہ انھیں ایک بار اپنی زندگی بچانے کے لیے چھپنا پڑا جب ایک مریض کے لواحقین نے ان پر اس لیے حملہ کر دیا کہ وہ مریض کو ایک مخصوص انجیکشن لگانے کے لیے ان کے ٹیسٹس کی رپورٹ کا انتظار کر رہی تھیں۔ ’وہ شخص بہت اونچے قد کا تھا اور وہ مجھ پر چیخنے چلانے لگا۔ میں دروازے کے ساتھ لگ گئی۔ وہ مجھے دھمکیاں دے رہا تھا۔ اس نے کہا ابھی انجیکشن لگاو ورنہ تمہیں مار ڈالوں گا۔‘
پاکستان میں نرسنگ عملے میں ایک بہت بڑی تعداد غیر مسلم مرد و خواتین کی ہے۔ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے خواتین نرسز کے لیے مسائل کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ ایسی چند خواتین نے بتایا کہ انھیں اکثر اضافی شفٹیں بھی کرنی پڑتی ہیں خاص طور پر ان دنوں جب مسلم نرسز تہواروں کے لیے چھٹی پر ہوں، یا رمضان کے مہینے میں جب ان کی شفٹس کا دورانیہ کم کیا جاتا ہے۔
نرس الزبتھ تھامس نے بتایا کہ غیر مسلم نرسز کو انتہائی نامناسب رویوں کا سامنا اپنے مذہب کی وجہ سے بھی کرنا پڑتا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’میں ایسی بہت سی نرسز کو جانتی ہوں جنھیں ہراساں کیا جاتا ہے اور اگر وہ بات نہ مانیں تو یہ دھمکی تک دے دی جاتی ہے کہ ہم تم پر توہین مذہب کا الزام لگا دیں گے، پھر کیا کرو گی؟ اچھی شکل و صورت کی نرس ہے تو بڑے آرام سے کہہ دیا جاتا ہے کہ تم اپنا مذہب تبدیل کر دو۔ اس لمحے ہم یہی سوچ رہے ہوتے ہیں کہ اس بات کا کیا جواب دیں۔ کیونکہ اگر مثبت جواب نہ دیا تو کہیں توہین مذہب کا جھوٹا الزام ہی نہ لگا دیں۔ اور ایسا ہوا ہے نرسز کے ساتھ۔ ‘
’14 گھنٹے کی شفٹ اور ماہواری کے دوران واش روم نہیں جا سکتے تھے‘
دوسری جانب ڈاکٹرز نے بی بی سی کو سخت أوقات کار، طویل شفٹوں اور ان شفٹوں کے دوران کسی قسم کی سہولیات کا میسر نہ ہونا جیسے مسائل سے متعلق بھی بتایا۔ یہاں تک کہ ڈاکٹرز کے آرام کے لیے کمرے موجود نہیں ہوتے، ہسپتالوں میں خاص طور پر کوریڈورز، ہال ویز اور ایک بلاک سے دوسرے بلاک جانے والے راستوں میں روشنی کا مناسب انتظام نہیں ہوتا۔
اُن کے مطابق کئی سرکاری ہسپتالوں کے وارڈز میں خواتین ڈاکٹرز کے لیے واش رومز میسر نہیں ہوتے، اگر ہوں تو ان کے لاکس ٹھیک نہیں ہوں گے یا وہ دوسرے بلاکس اور وارڈز میں ہوں گے جہاں جانا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر آمنہ نے آج سے پانچ سال پہلے صوبہ پنجاب کے ایک سرکاری ہسپتال سے متعلق بتایا کہ ’دور دراز علاقوں میں تو سکیورٹی تو دور کی بات ہے وہاں ہال ویز میں روشنی کا انتظام تک نہیں ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جس سرکاری ہسپتال میں میں تعینات تھی وہاں کی راہداریوں سے رات تو دور کی بات دن میں گزرتے بھی ڈر لگتا تھا۔ ہر قسم کے لوگ وہاں آتے تھے، کوئی گارڈز نہیں تھے، کچھ بھی نہیں تھا۔ ہمارے سرجیکل وارڈ ویکس بھی ہوتے ہیں جب ہمیں پورا ہفتہ، دن اور رات وہیں گزارنا ہوتے تھا۔‘
دوسری جانب ڈاکٹر سعدیہ نے کراچی کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال سے متعلق بتایا کہ وہ طویل شفٹوں کے دوران کسی ساتھی ڈاکٹر کی گاڑی میں آرام کرنے جاتی تھیں کیونکہ ڈاکٹرز کے آرام کے لیے کمرہ موجود نہیں تھا۔
’ہم نے وہ حالات بھی دیکھے ہیں جہاں ہماری 30 گھنٹے کی ڈیوٹی میں آرام کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی کمرہ نہیں ہوتا تھا۔ ہم باہر کسی کولیگ کی گاڑی میں جا کر آدھا گھنٹہ، یا پندرہ منٹ آرام کرتے۔ جب میں ایمرجنسی وارڈ میں کوئی واش روم نہیں ہوتا تھا۔ چودہ چودہ گھنٹے کی ڈیوٹی میں ہم ٹوائلٹ نہیں جاتے تھے کیونکہ ہمارے واش رومز دوسرے بلاکس میں ہوتے تھے، جہاں دن میں جانے کا ٹائم نہیں ملتا تھا اور رات کو جانا خطرناک ہوتا ہے۔‘ حتی کہ اگر خاتون ڈاکتر یا نرس کا مینسٹروول سائیکل چل رہا ہے تب بھی ہم واش روم نہیں جا سکتے تھے۔‘
ڈاکٹر سعدیہ کے مطابق ہسپتالوں میں کام کرنے والے عملے کے افراد کا مکمل بائیو ڈیٹا نہیں ہوتا۔ ’ہمیں نہیں پتا کہ یہ سوئیپر کون ہے اور یہ جو شخص جھاڑو لگا رہا ہے یا خود کو عملہ ظاہر کر کے وارڈ میں گھوم رہا ہے، کیا یہ واقعی ہسپتال کا عملہ ہے؟ ان کے گلے میں شناختی کارڈز یا آفس کارڈز نہیں ہوتے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ عملے میں کسی شخص کو چھٹی کرنا ہو تو وہ اپنی جگہ کسی کو بھی بھیج دے گا۔ وہ کوئی بھی ہو سکتا ہے، ہمیں کچھ علم نہیں ہوتا کہ ہمارے اردگرد کام کرنے والے لوگ کون ہیں۔ ہسپتال میں کوئی بھی کسی بھی وقت داخل ہو سکتا ہے۔‘
حال ہی میں انڈیا میں ایک ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے واقعے کے بعد پاکستان میں بھی خواتین ڈاکٹرز میں یہ بحث جاری ہے کہ خود کو کیسے محفوظ بنایا جائے۔
ڈاکٹر سعدیہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اس واقعے کا شدید اثر لیا اور اپنی روٹین تبدیل کی ہے۔
’میں نے یہ روٹین بدلی ہے کہ اب میں اندھیرے والی جگہ یا سنسنان جگہوں پر نہیں جاتی۔ پہلے سیڑھیاں چڑھنے کی کوشش کرتی تھی مگر مجھے اب تحفظ کے لیے لفٹس بہتر لگتی ہیں۔‘
الزبتھ تھامس کہتی ہیں کہ اس واقعے کے بعد وہ سونے میں مشکل محسوس کرتی ہیں۔ ’میری سات سال کی بیٹی ہے اور وہ اکثر کہتی ہے کہ میں ڈاکٹر بنوں گی۔ مگر میں یہ سوچتی ہوں کہ کیا اس ملک میں ڈاکٹر محفوظ ہے؟‘
پاکستان میں صحت کی وزراتیں اٹھارہویں ترمیم کے بعد اب صوبوں کے پاس ہیں۔ بی بی سی نے صوبائی وزرا اور دارالحکومت میں صحت کے کوآرڈینٹر سے ان تمام دعوؤں، الزامات اور ہسپتالوں میں سکیورٹی کے ناقص انتظامات سے متعلق سوال کیے، مگر تادم تحریر کسی بھی صوبے کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔