- مصنف, مانی جازمی
- عہدہ, بی بی سی سپورٹ
28 اپریل 1993 کی صبح لوگ سمندر پر طلوع آفتاب کا نظارہ دیکھنے کے لیے بیٹھے تھے۔ اسی وقت لہروں کے ہمراہ کچھ لاشیں ساحل پر آ گئیں۔
مچھیرے فوراً گہرے سمندر میں کشتیاں لے گئے، غوطہ خور سمندر میں کودے اور فضا ہیلی کاپٹر کی آوازوں سے گونج اُٹھی۔
جب تک دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا ساحل پر بلیک کِٹ بیگز، جہاز کا ملبہ اور 24 افراد کی لاشوں کی باقیات وسطی افریقہ کے ملک گیبون میں بحر اوقیانوس سے نکالی جا چکی تھیں۔
اس وقت ایک ایسی کہانی کا آغاز ہوا جس سے تقریباً دو دہائیوں تک لوگ متاثر ہوتے رہے۔
اس مقام سے تقریباً چار ہزار میل دور افریقہ کے ایک بہترین فُٹ بالر کالوشا بوالیا اپنا کِٹ بیگ پیک کر چکے تھے اور جاگنگ پر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔
یہ کھلاڑی تھے، جنھیں افریقہ کا سب سے بہترین فُٹبالر قرار دیا گیا تھا۔
سنہ 1988 میں سیول میں ہونے والے اولمپکس کے کواٹر فائنل میں کالوشا نے تین گول کیے تھے اور اسی سبب زیمبیا کی ٹیم اٹلی کو صفر کے مقابلے میں چار گول سے شکست دینے میں کامیاب ہوئی تھی۔
انھوں نے نیدرلینڈز کا معروف فُٹ بال کلب پی ایس وی جوائن کرلیا اور برازیل کے لیجنڈ کھلاڑی رومیریو کے ساتھ بھی طویل عرصے تک فُٹ بال کھیلتے رہے۔
کالوشا اور یورپ میں مقیم زیمبیا کے دو مزید کھلاڑیوں نے سینیگال میں اپنی قومی ٹیم میں شامل ہونا تھا تاکہ 1994 کے فُٹبال ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائنگ راؤنڈ کا پہلا میچ کھیل سکیں۔
اس زمانے میں زیمبیا کی ٹیم بہت مضبوط تھی اور لوگوں کو امید تھی کہ ان کے کھلاڑی پہلی مرتبہ ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے کوالیفائی کر جائیں گے۔
کالوشا کو ایمسٹرڈیم سے باراستہ پیرس سینیگال کے شہر ڈاکار بزریعہ جہاز جانا تھا اور اس سے پہلے انھوں نے سوچا کہ تھوڑی جوگنگ کر لی جائے۔
مگر اس سے پہلے کہ وہ ایئرپورٹ کے لیے نکلتے ان کے فون کی گھنٹی بج اُٹھی۔ 1990 کی دہائی میں کچھ ہی لوگوں کے پاس موبائل فون تھے اور کالوشا ان لوگوں میں شامل نہیں تھے۔
جب لینڈ لائن کی گھنٹی بجی تو کالوشا نے فوراً فون اُٹھایا۔
کالوشا کہتے ہیں کہ ’فون پر دوسری طرف زیمبیا کی فُٹ بال ایسوسی ایشن کے خزانچی تھے۔‘
زیمبیا کے سابق فُٹ بالر مزید بتاتے ہیں کہ ’انھوں نے مجھ سے پہلی بات یہ کی کہ آپ کو اپنی فلائٹ مؤخر کرنا پڑے گی۔ ایک حادثہ ہو گیا ہے۔‘
زیمبیا کے لیے ان کی فُٹ بال ٹیم امید کی ایک مشعل تھی۔
اس وقت زیمبیا کی معیشت کا انحصار تانبے کی ایکسپورٹ پر تھا اور گذشتہ چار برس میں اس کی قیمت تقریباً آدھی ہو گئی تھی۔
اسی دوران زیمبیا کے صدر فریڈرک چیلوبا نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ٹیم کے کھلاڑیوں کو چیپولو پول یعنی ’تانبے کی گولیاں‘ کہا جاتا تھا۔
ٹیم حادثے سے کچھ ہی دن پہلے افریقہ کپ آف نیشنز کے کوالیفائر راؤنڈ میں موریشس کی ٹیم کو صفر کے مقابلے میں تین گول سے شکست دے کر آئی تھی۔
یہ زیمبیا کی وہ ٹیم تھی جو گذشتہ آٹھ برسوں میں اپنے ملک میں ایک بھی میچ نہیں ہاری تھی۔
زیمبیا کے لوگوں کو پوری اُمید تھی کہ ان کی ٹیم 1994 میں امریکہ میں ہونے والے فُٹبال ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کر لے گی۔
لیکن ایسا کرنے کے لیے انھیں کوالیفائنگ راؤنڈ میں مراکش اور سینیگال کو شکست دینی تھی اور ان کا پہلا میچ بھی سینیگال کے خلاف تھا۔
ہمیشہ کی طرح انھیں فوج کے ڈی ایچ سی فائیو بفیلو طیارے میں سینیگال کی طرف سفر کرنا تھا کیونکہ خراب معاشی صورتحال کے سبب ایسوسی ایشن کسی کمرشل فلائٹ میں اپنی ٹیم کو کو ڈاکار نہیں بھیج سکتی تھی۔
زیمبیا کی فوج کا یہ جہاز ویتنام کی جنگ میں بھی استعمال ہوا تھا۔
چھ مہینے پہلے یہ جہاز بحیرہ ہند کے اوپر اُڑ رہا تھا اور اس وقت بھی پائلٹ نے فُٹ بال کے کھلاڑیوں کو کہا تھا کہ وہ لائف جیکٹس پہن لیں۔
جب سینیگال جانے کے لیے زیمبیا کے دارالحکومت لوساکا میں واقع ایئرفیلڈ میں ڈومیسٹک کھلاڑی داخل ہوئے تو ان سے وہاں سلیکشن کمیٹی کے ایک رُکن نے ملاقات کی۔
انھوں نے 21 سالہ مِڈفیلڈر اینڈریو ٹیمبو اور گول کیپر مارٹم مومبا کو کہا کہ انھیں جہاز میں سوار ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ انھیں ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا ہے۔
اس وقت کھلاڑیوں اور سلیکشن کمیٹی کے رُکن کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
وہ ایک عام سا فیصلہ تھا جو میچز سے قبل کیا جاتا ہے لیکن اس وقت یہ فیصلہ زندگی اور موت کا معاملہ بن گیا تھا۔
جہاز کے پائلٹ کا پلان تھا کہ سینیگال کے دارالحکومت پہنچے سے پہلے وہ کانگو، گیبون اور آئیوری کوسٹ میں ایندھن لینے کے لیے رُکیں گے لیکن یہ جہاز گیبون سے آگے نہیں جا سکا۔
آج تک زیمبیا کی حکومت نے کوئی ایسی سرکاری رپورٹ جاری نہیں کی جس سے پتا چل سکے کہ آخر جہاز کو حادثہ کیسے پیش آیا۔
لیکن سنہ 2003 میں گیبون کے حکام نے کہا تھا کہ لبریویل سے اُڑان بھرنے کے بعد زیمبیا کی فُٹ بال ٹیم کے جہاز کے انجن نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔
دوسری جانب نیدرلینڈز میں کالوشا اپنی جوگنگ کو بالکل ہی بھول چکے تھے اور ٹی وی پر طیارہ حادثے کی خبر دیکھ رہے تھے۔
وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ایک خاتون خبر پڑھ رہی تھیں اور ان کے پیچھے زیمبیا کا جھنڈا دیکھا جا سکتا تھا۔‘
’وہ کہہ رہی تھیں کہ زیمبیا کی قومی فُٹبال ٹیم کا جہاز سینیگال کے شہر ڈاکار جاتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گیا ہے اور کوئی زندہ نہیں بچ سکا۔‘
کالوشا کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ کل کا ہی واقعہ ہے اور اب بھی یہ منظر ان کے ذہن میں تازہ ہے۔
لوساکا کی ایئرفیلڈ میں سلیکشن کمیٹی کے جس رُکن کی کھلاڑیوں سے ملاقات ہوئی تھی بعد میں وہ کھلاڑیوں کی لاشیں پہچاننے کے لیے گیبون گئے۔
ایک ہی لمحے میں ان کا کام تبدیل ہو چکا تھا۔ پہلے وہ کھلاڑیوں کی سلیکشن کرتے تھے اور اب وہ کھلاڑیوں کی شناخت کرنے گیبون جا رہے تھے۔
بی بی سی ورلڈ سروس پوڈکاسٹ ’کوپر بُلٹس‘ میں بات کرتے ہوئے سلیکشن کمیٹی کے رُکن کانگوا کا کہنا تھا کہ ’لاشیں کافی وقت تک پانی میں موجود رہی تھیں اور ان کے چہروں کی حالت بدلنے لگی تھی۔‘
’اس کے بعد میں رویا، ہم سب روئے۔ ہم میں سے کسی نے نہیں سوچا تھا کہ ہم ایک ایسے وقت کا سامنے کریں گے جب ہم اپنے ساتھیوں کو ٹکڑوں میں دیکھیں گے۔‘
پھر کالوشا بھی لوساکا پہنچ گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم لاشیں وصول کرنے گئے اور پھر ایک ایک کرکے ان کی لاشوں کو ایک طیارے میں چڑھایا گیا، انھیں انڈیپنڈنس سٹیڈیم لے کر جانا تھا۔‘
کالوشا مزید کہتے ہیں کہ ’اس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ میں اپنی ٹیم کو کبھی دوبارہ نہیں دیکھ پاؤں گا، یہ وہ ٹیم تھی جس کے ساتھ کچھ مہینوں تک میں بھی سفر کر رہا تھا۔‘
دو مئی 1993 کو انڈیپنڈنس سٹیڈیم میں ان کھلاڑیوں کی آخری رسومات ادا کی گئیں اور وہاں ایک لاکھ سے زائد افراد جمع ہوئے۔
ان رسومات میں شرکت کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد سٹیڈیم کے باہر کھڑی تھی کیونکہ سٹیڈیم میں صرف 35 ہزار افراد کی جگہ تھی۔
آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد زیمبیا کے فُٹ بالرز کی یاد میں شمعائیں جلائی گئیں اور پھر ان کی تدفین کر دی گئی۔
ہر قبر کے قریب ایک درخت لگایا گیا اور اس گارڈن کو ’ہیروز ایکڑ‘ کا نام دیا گیا۔ یہ گارڈن سٹیڈیم سے صرف 100 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
مرنے والوں میں گوڈفرے چیتالو بھی شامل تھے جو ٹیم کے کوچ بننے سے قبل زیمبیا کے مشہور ترین فُٹ بالر تھے۔
ان قبروں میں سے ایک قبر کالوشا کے سابق روم پارٹنر ڈیوڈ چبالا کی بھی تھی۔
کالوشا کے مطابق ’میں اب بھی محسوس کرتا ہوں جیسے لڑکوں کے ساتھ چینجنگ روم میں ہوں، میں ان لڑکوں کے چہرے آج بھی دیکھ سکتا ہوں، وہ کتنے خوش تھے، یہ ایک حسین ماضی تھا۔‘
طیارہ حادثے کے بعد سب غمزدہ تو تھے ہی لیکن سوال یہ بھی تھا کہ: اب زیمبیا فُٹ بال ٹیم کے حوالے سے کیا کرے گا؟
کالوشا کہتے ہیں کہ انھیں پتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔
’میں نے سوچا تھا کہ زیمبیا کی ٹیم اب دوبارہ کبھی نہیں کھیلے گی۔ مجھے یقین تھا کہ ان ہمارے تمام مقاصد ختم ہو چکے ہیں۔‘
لیکن ملک کے صدر کی جانب سے انھیں ایک فون کال موصول ہوئی۔ زیمبیا کی ایک نئی فُٹ بال ٹیم تشکیل دی جا رہی تھی اور کالوشا اس کے مرکزی کھلاڑی تھے۔
لوساکا میں تقریباً 20 کوچز جمع ہوئے اور تقریباً 60 کھلاڑیوں کے ٹرائلز ہوئے۔ پھر کچھ کھلاڑیوں کا انتخاب کیا گیا اور انھیں چھ ہفتوں کی ٹریننگ کے لیے ڈینمارک بھیجا گیا۔
کوپن ہیگن کے ایئرپورٹ پر زیمبیا کی نئی ٹیم کا استقبال ایک نئے مگر عارضی کوچ نے کیا۔
بیالیس سالہ روالڈ پولسن ورلڈ کپ کوالیفائر کے لیے نئی ٹیم کو تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
روالڈ کہتے ہیں کہ ’مجھے کچھ نہیں پتا تھا کہ میں کیا کروں گا، مجھے کھلاڑیوں کے بارے میں نہیں پتا تھا، نہ ہی ان کے پسِ منظر کے بارے میں میں کچھ جانتا تھا، مجھے تو وہاں کے معاشرے اور زیمبیا کی فُٹ بال ٹیم کے بارے میں بھی کچھ نہیں پتا تھا۔‘
’میں اس وقت زیادہ پریشان ہوا جب میں نے ان کھلاڑیوں کا معیار دیکھا۔ انھیں خود نہیں معلوم تھا کہ وہ اچھا کھیلتے ہیں یا نہیں۔‘
کوپن ہیگن پہنچنے والے کھلاڑی بھی وہاں ایڈجسٹ ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان میں سے بہت سے ایسے تھے جو زندگی میں کبھی افریقہ سے باہر نہیں نکلے تھے۔
پولسن کو ایک دن ٹریننگ کے بعد انھیں سجھانا پڑا کہ وہاں جنگل جوگنگ کے لیے محفوظ ہے اور کسی شیر کے حملے کا امکان بھی زیمبیا کے مقابلے میں کم ہے۔
دوسری جانب کالوشا نے نئے کھلاڑیوں کے ساتھ ایک رشتہ قائم کر لیا تھا اور وہ انھیں قومی ذمہ داری کا احساس بھی دلاتے رہتے تھے۔
کالوشا اپنی نئی ٹیم کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہر کوئی اپنے ہیروز کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا، انھیں معلوم تھا کہ وہ کسی کے متبادل تھے اور کسی اور کی جگہ ٹیم کا حصہ بنے تھے۔‘
پھر 4 جولائی کو کچھ کر دکھانے کا وقت آگیا۔
جنازوں کی آخری رسومات کے تقریباً دو ماہ بعد زیمبیا کی 1994 ورلڈ کپ کوالیفائنگ مہم تاخیر سے مراکش کے خلاف لوساکا میں شروع ہوئی۔
کالوشا بتاتے ہیں کہ ‘میں نے کپتان کا بازو بند پہنا ہوا تھا اور ہم قطار میں کھڑے تھے۔’
‘میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ سب اپنی اپنی جگہ ہیں کہ نہیں۔ میرے پیچھے ہمیشہ چبالا ہوتے تھے۔ لیکن اب مجھے سب نئے چہرے نظر آئے۔’
صرف دس منٹ بعد ہی مراکش کی جانب سے راشد داؤدی نے ایک شاندار گول کیا۔ سٹیڈیم میں مداحوں نے ماضی کو یاد کر کے آج میں جان ڈال دی۔
صحافی پونگا لیووے یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں ‘اوپر جو لوگ یادگار کے آگے کھڑے تھے وہ مڑ گئے اور انھوں نے اپنے جُدا ہونے والے کھلاڑیوں، اپنے بھائیوں سے فریاد کرنی شروع کر دی۔’
’وہ کہہ رہے تھے کہ کیا ہم آپ کی مدد سے میچ میں واپس آ سکتے ہیں؟‘
اور پھر زیمبیا اپنی کوشش میں کامیاب ہوگیا۔
ایک گھنٹے بعد کالوشا نے فری کِک پر ایک شاندار گول کیا اور 10 منٹ کے اندر جانسن بوالیا نے زیمبیا کی جانب سے دوسرا گول کر کے اپنی ٹیم کو میچ جتوا دیا۔
صحافی پونگا لیووے کہتے ہیں کہ ‘ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم موت کے منہ سے واپس آئے ہیں۔’
‘پوری قوم اپنے قدموں پر کھڑی تھی۔ ہم دوبارہ زندہ ہو گئے تھے۔ یہی مناسب الفاظ ہیں اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے۔ ہمیں لگا کہ ہم ایک بار پھر دنیا فتح کر سکتے ہیں۔’
تاہم پھر بھی وہ ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنے سے قاصر رہے۔
اس وقت زیمبیا کو امریکہ میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ میں کوالیفائی کرنے کے لیے صرف ایک پوائنٹ درکار تھا۔
لیکن زیمبیا کی ٹیم اگلا میچ مراکش سے صفر کے مقابلے میں ایک گول سے ہار گئی۔
چھ مہینے بعد اس ٹیم نے ہر کسی کو ایک بار پھر حیران کردیا لیکن یہ خوشی بھی دیرپا ثابت نہیں ہوئی۔
تمام پریشانیوں کو عبور کرکے زیمبیا کی ٹیم 1994 کے افریقہ کپ آف نیشنز کے فائنل میں پہنچ گئی تھی جہاں اس کا مقابلہ نائجیریا سے ہوا۔
میچ کے چوتھے ہی منٹ میں علیجاہ لیٹانا نے زیمبیا کے لیے پہلا گول کر دیا تھا لیکن پھر نائیجیریا کے ایمینوئل امونیکے نے دو گول کر کے اپنے ملک کو افریقہ کا چیمپیئن بنوا دیا۔
ایک سال سے بھی کم کے عرصے میں زیمبیا نے اپنی پوری ٹیم کھوئی، نئے کھلاڑی ڈھونڈَے اور پھر ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنے اور افریقہ کپ جیتنے کے بہت قریب پہنچا۔
کالوشا کہتے ہیں کہ ’اس ایک برس کو سمجھنے کے لیے لوگوں کو دس سالوں کی ضرورت تھی۔‘
’ہمارے بچھڑے ہوئے ساتھی، جہاں بھی تھے، ہمیں دیکھ رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے: بہت اچھی کوشش، آپ لوگ اچھا کھیل رہے ہیں، ایسے ہی کھیلتے رہیں۔‘
دو سال بعد زیمبیا افریقہ کپ آف نیشنز میں تیسری پوزیشن پر تھا اور پھر اس کے بعد ان کی ٹیم اگلے 16 برسوں تک گمنامی میں چلی گئی۔
سنہ 2012 کے افریقہ کپ آف نیشنز کے لیے جانے والی زیمبیا کی ٹیم میں مشہور کھلاڑی کم ہی تھے۔
زیادہ تر کھلاڑی یا تو اپنے ملک کی ڈومیسٹک لیگ میں کھیلے تھے یا جنوبی افریقہ اور کانگو کی لیگز میں جبکہ ٹیم کے کپتان کرس کاٹونگو چین میں مقیم تھے۔
اس بات میں کوئی حیرانی نہیں تھی کہ لوگوں کو ان کے جیتنے کا بالکل بھی یقین نہیں تھا۔
زیمبیا کے کوچ ہیرو رینارڈ تھے۔ رینارڈ فرانسیسی تھے جو فٹ بال کوچ بننے سے پہلے بطور کلینر کام کرتے تھے۔ بطور فٹبال کوچ ان کے کیریئر کو تقریباً ایک دہائی گزر چکی تھی اور وہ اب تک کوئی بھی ٹرافی جیت نہیں پائے تھے۔
تاہم تمام توقعات کے برعکس زیمبیا کی ٹیم حیران کن کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہی۔
زیمبیا اپنے گروپ میں جس میں سینیگال بھی تھی سرفہرست رہی۔ انھوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیمی فائنل میں گھانا کو شکست دی۔
مگر فائنل میں پہنچ کر انھیں ماضی کا سامنا کرنا پڑا۔
افریقہ کپ آف نیشنز 2012 کے دو شریک میزبان تھے: استوائی گنی اور گبون۔
تاہم فائنل سے قبل زیمبیا کے تمام میچز استوائی گنی میں ہی ہوئے تھے۔
زیمبیا کی فٹ بال ایسوسی ایشن کے اس وقت کے صدر کلوشا کہتے ہیں، ’ہم صرف ایک میچ گبون، لیبرویل میں کھیلنے جا رہے تھے اور وہ فائنل تھا۔‘
ٹورنامنٹ کا فائنل گبون کے اس ساحل سے 10 میل سے بھی کم فاصلے پر کھیلا جانا تھا جہاں 1993 میں زیمبیا کی ٹیم ہلاک ہوئی تھی۔
کلوشا کہتے ہیں کہ میں نے کوچ سے کہا کہ ہمیں پرانی ٹیم کو نئی ٹیم سے روشناس کروایا جائے تاکہ ان کے درمیان ایک رابطہ قائم ہوجائے۔
’میں نے سب کو بتادیا کہ پہنچنے کے بعد سب سے پہلی چیز جو کریں گے وہ سائٹ کا دورہ ہوگا۔‘
فائنل سے تین روز قبل، کالوشا، کاٹونگو اور رینارڈ ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں اس ساحل پر پھول بہائے جہاں دو دہائیاں قبل زیمبیا کی ٹیم کی لاشیں، جوتے اور بیگ بہہ کر آئے تھے۔
کاٹونگو، جو 1993 میں 11 سال کے تھے، کہتے ہیں، ’جب ہم ہوائی جہاز کے حادثے کی جگہ سے باہر نکل کر بس میں بیٹھے تو میں نے دیکھا کہ کھلاڑی تھوڑے خاموش خاموش سے تھے۔‘
’یہاں تک کہ اگر کوئی کھلاڑی موسیقی سن بھی رہا تھا تب بھی وہ کچھ اور سوچ رہے تھے اور کسی بات کو ہضم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ اسی لمحے سب نے سوچ لیا کہ انھیں مل کر ایک ٹیم کے طور پر کام کرنے ضرورت ہے تاکہ وہ حاصل کیا جا سکے جو ان سے پہلے گبون میں ہلاک ہو جانے والی ٹیم حاصل کرنا چاہتی تھی۔
کالوشا کو دکھ رہا تھا کہ کھلاڑیوں کی سوچ یکسر بدل گئی ہے۔
’لڑکے اب سوچ رہے تھے کہ اب وہ صرف اپنے لیے نہیں کھیل رہے ہیں بلکہ ان ہیروز کے لیے بھی کھیل رہے ہیں جو اب نہیں رہے اور اس کا مطلب محض ٹورنامنٹ کا فائنل کھیلنے سے کہیں زیادہ تھا۔‘
فائنل سے پہلے ٹیم ٹاک کا محور وہ احساس تھا جو ان سب نے ساحلِ سمندر پر محسوس کیا تھا۔
کھلاڑیوں سے کہا گیا کہ وہ ان تمام کھلاڑیوں اور لوگوں کے بارے میں سوچیں جو اس طیارے میں مجود تھے اور جنھوں نے اپنے ملک کے لیے جان دی تھی۔ ’ان کے خاندانوں کے بارے میں سوچو، اپنے ملک کے بارے میں سوچو۔ ہمیں یہ کرنا ہوگا۔ ہم اس شاندار موقع کو ضائع نہیں کر سکتے۔‘
ان کی تقریر اتنی ہی ڈرامائی تھی جتنا اس دن کا فائنل ہوا۔
کھیل کا دوسرا ہاف جاری تھا اور دونوں ٹیمیں گول کرنے میں ناکام رہی تھیں کہ آئیوری کوسٹ کو پینلٹی چانس ملا۔
ڈروگبا جو اس وقت فٹبال کلب چیلسی کے ساتھ منسلک تھے اور آئیوری کوسٹ کے بہترین کھلاڑیوں میں سے ایک تھے پینلٹی کک لینے آئے۔ سب کو یقین تھا کہ اب تو آئیوری کوسٹ کی برتری یقینی ہے لیکن اس روز ڈروگبا پینلٹی شاٹ مس کر گئے اور بال گول بار کے اوپر سے چلی گئی۔
اس کے بعد اضافی وقت میں بھی دونوں ٹیمیں گول کرنے میں ناکام رہیں۔
کھیل کا فیصلہ اب پینلٹی ککس پر کیا جانا تھا۔ دونوں نے پہلی سات سات پینلٹیز پر سکور کرنے میں کامیاب رہی۔ دونوں ہی ٹیمیں اپنی آٹھویں کِک میں ناکام رہیں۔
جیت کے لیے صرف ایک گول درکار تھا۔ زیمبیا کے سٹاپیلا سنزو نے پینلٹی کک کے لیے اپنی جگہ پہنچے۔
رن اپ کی تیاری کرتے وہ گنگنا رہے تھے۔ وہ گیند کو کِک کرنے ہی والے تھے کہ وہ پھنسل کر گرے تاہم اس کے باوجود بال ان کے پیر سے لگ کر گول کے اندر چلی گئی۔
ان کے ساتھی جو گھٹنوں پر بیٹھے دعا مانگ رہے تھے یکدم خوشی منانے کے لیے آگے بڑھے۔
انیس سال پہلے، ایک ہوائی جہاز نے گبون سے زیمبیا کے لیے اڑان بھری تھی جو مرنے والوں کو ان کی آخری آرام گاہ تک لے گئی۔
اب ایک اور جہاز وہی سفر کرے گا۔ مگر اس بار وہ ایک سنہری ٹرافی اور ایسی شاندار جیت کے احساس کے ساتھ ہوں گے جو اگلی کئی نسلیں یاد رکھیں گی۔